بلوچستان میں قتل ہونے والے مرد و عورت شادی شدہ جوڑا نہیں تھے: سرفراز بگٹی

وزیرِ اعلیٰ بلوچستان کے مطابق دہرے قتل کے اس کیس میں 11 ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے، جب کہ ڈی ایس پی کو معطل کر دیا گیا ہے۔

کوئٹہ کی ایک مقامی عدالت نے بلوچستان کے علاقے ڈیگاری میں پیش آنے والے دہرے قتل کا نشانہ بننے والے مرد اور خاتون کی قبر کشائی کا حکم دیا ہے۔

بلوچستان کے وزیر اعلیٰ میر سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ صوبے میں قتل ہونے والے مرد اور خاتون شادی شدہ جوڑا نہیں تھے۔

پیر کو کوئٹہ میں پریس کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ مرنے والی خاتون کے پانچ بچے ہیں، جب کہ قتل ہونے والے مرد کے بھی  چار پانچ بچے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے سے پہلے ویڈیو ان کے پاس آ گئی تھی۔ علاقے میں سپیشل برانچ کے متعلقہ ڈی ایس پی کو معطل کر دیا گیا ہے۔ ان کا کام تھا کہ حکومت کو واقعے کے بارے میں اطلاع کرتے۔

بلوچستان ہائی کورٹ نے اس واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے صوبائی ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ اور آئی جی پولیس کو کل (22 جولائی کو) عدالت میں طلب کر لیا ہے۔

دہرے قتل کیس میں گرفتار کیے گئے ساتکزئی قبیلے کے سردار سرباز ساتکزئی کو بھی پیر ہی کو کوئٹہ میں انسداد دہشت گردی (اے ٹی سی) کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ عدالت نے ملزم کو دو روز کے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا۔

کوئٹہ میں ایس پی سیریس کرائم برانچ عبدالصبور آغا نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ایک ٹیم جلد ہی مقتولین کی قبر کشائی کرے گی۔

سوشل میڈیا پر ہفتے کو ایک ویڈیو وائرل ہوئی، جس میں تقریباً درجن افراد کو فائرنگ کر کے ایک خاتون اور مرد کو قتل کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے اس کا نوٹس لیتے ہوئے حکام کو علاقے کی نشاندہی اور ملزمان کی گرفتاری کا حکم دیا تھا۔

وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے پیر کو بتایا کہ صوبے میں مبینہ طور پر ’غیرت کے نام‘ پر مرد اور خاتون کے قتل کیس میں 11 ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا۔

ایس پی عبدالصبور نے بتایا کہ ھنہ پولیس حکام نے 11 ملزمان کو گرفتار کر کے سیریس کرائم برانچ کے حوالے کر دیے ہیں، جن کے ریمانڈ انسداد  دہشت گری عدالت سے حاصل کیے جائیں گے۔  

بلوچستان پولیس کے مطابق ضلع کوئٹہ کے علاقے سنجیدی کے کلی ستنگی میں غیرت کے نام پر قتل کا نشانہ بننے والے مرد اور خاتون کے نام بالترتیب احسان اللہ اور بی بی بانو تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پولیس کی تفتیش کے مطابق دونوں کو قتل کیے جانے سے پہلے مقامی سردار کے سامنے پیش  کیا گیا تھا اور اس کے احکامات کی روشنی  میں 16 افراد پر مشتمل گروپ نے فائرنگ کر کے دونوں کو قتل کیا۔

ایف آئی آر کے مطابق واقعہ 35 روز قبل پیش آیا تھا۔

غیرت کے نام پر قتل

خواتین کے حقوق اور ان پر تشدد کی روک تھام کے لیے کام کرنے والی تنظیم عورت فاؤنڈیشن اور ایواجی الائنس کے چیئرمین علاؤالدین خلجی نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ 2019 سے 2024 کے درمیان بلوچستان میں 212 افراد کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا ہے۔

ان کلا کہنا تھا کہ انہوں نے کہا کہ  گذشتہ دو سال کے دوران صوبہ بلوچستان میں درجنوں خواتین کو غیرت، رسم و رواج اور جبری شادیوں جیسے بہانوں کے تحت قتل کیا گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ صرف یہ ایک واقعہ ہی بلوچستان میں نہیں ہوا بلکہ اس جیسے بہت سے واقعات رو نما ہوتے ہیں، جو بے نام دفن کر دیے جاتے ہیں۔

علاؤالدین خلجی نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اس واقعے کی فوری تحقیقات کی جائیں اور ملوث افراد کو قانون کے کٹہرے میں لا کر سخت سے سخت سزا دی جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایسے واقعات کو صرف روایتی جرائم کے بجائے انسانیت کے خلاف جرم تصور کیا جائے۔

علاؤالدین خلجی نے مطالبہ کیا  غیرت کے نام پر قتل کے تمام مقدمات کو انسداد دہشت گردی کے قوانین کے تحت نمٹایا جائے۔

بلوچستان بار کونسل کے وائس چیئرمین راحب خان بلیدی نے انڈیپنڈنٹ اردو سے گفتگو میں واقے کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر مقتولین نے کوئی جرم بھی سرزد کیا تھا تو عام شہری کو انہیں سر عام گولی مارنے اور قانون ہاتھ میں لینے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ واقعے میں ضلعی انتظامیہ کی سستی اور بے حسی بھی واضح ہے، لہذا اس کا مقدمہ متعلقہ ضلع کے ڈپٹی کمشنر اور ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر کے خلاف بھی درج کیا جائے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان