’ہمارے والدین حراست میں نہ مر جائیں‘: برطانوی بچوں کی افغان طالبان سے اپیل

افغانستان میں قید ایک بزرگ برطانوی جوڑے کے بچوں نے طالبان حکومت سے اپنے والدین کی فوری رہائی کی اپیل کی ہے، جن کے بارے میں انہوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر فوری اقدام نہ کیا گیا تو ان کے وہ حراست میں ہی جان کی بازی ہار سکتے ہیں۔

طالبان انتظامیہ کی حراست میں موجود پیٹر رینالڈز اور باربی رینالڈز۔ انہوں نے 1970 میں کابل میں شادی کی تھی (خاندان کی طرف سے مہیا کردہ)

افغانستان میں قید ایک بزرگ برطانوی جوڑے کے بچوں نے طالبان حکومت سے اپنے والدین کی فوری رہائی کی اپیل کی ہے، جن کے بارے میں انہوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر فوری اقدام نہ کیا گیا تو ان کے وہ حراست میں ہی جان کی بازی ہار سکتے ہیں۔

76 سالہ باربی رینالڈز اور ان کے 80 سالہ شوہر پیٹر رینالڈز کو طالبان نے رواں سال یکم فروری کو اس وقت گرفتار کیا تھا جب وہ افغانستان کے مرکزی علاقے بامیان صوبے میں اپنے گھر واپس جا رہے تھے۔ دونوں میاں بیوی کو پانچ ماہ سے زیادہ وقت سے بغیر کسی الزام کے قید رکھا گیا ہے اور وہ آٹھ ہفتے قبل تک الگ الگ سخت سکیورٹی والی جیلوں میں قید تھے۔

رینالڈز گذشتہ 18 سال سے افغانستان میں مقیم تھے اور وہاں تعلیم اور تربیت سے متعلق منصوبے چلا رہے تھے۔

طالبان کے 2021 میں اقتدار میں آنے کے بعد بھی انہوں نے ملک چھوڑنے کے بجائے وہیں رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔

ان کے چاروں بچے، جو امریکہ اور برطانیہ میں رہائش پذیر ہیں، نے اپنے والدین کی بگڑتی ہوئی صحت پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ان کے والدین کئی امراض میں مبتلا ہیں اور قید کے حالات ان کے لیے جان لیوا ثابت ہو سکتے ہیں۔

بچوں نے ایک بیان میں کہا کہ ’یہ طالبان سے ایک اور فوری اپیل ہے کہ ’ہمارے والدین کو رہائی دی جائے، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے اور وہ حراست میں ہی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔ انہوں نے اپنی زندگی کے 18 سال افغان عوام کی خدمت میں گزارے ہیں۔‘

بچوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے گذشتہ دو ماہ کے دوران طالبان قیادت کو دو بار نجی طور پر خط لکھے تاکہ والدین کی رہائی ممکن بنائی جا سکے اور عوامی سطح پر اپیل سے گریز کیا تاکہ احترام کا مظاہرہ کیا جا سکے۔ تاہم اب وہ خاموشی توڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

ان کی بیٹی سارہ اینٹ وسل نے بتایا کہ ان کے والدین کی رہائی کے لیے کی گئی تمام کوششیں تاحال بے سود ثابت ہوئی ہیں۔

ان کا کہنا تھا: ’ہم نے نجی سطح پر طالبان سے اپیل کی کہ وہ رحم، انصاف اور انسانی وقار جیسے اپنے اصولوں پر قائم رہیں۔ اب ہم یہی اپیل عوامی سطح پر دہرا رہے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ پیر کو ایک بیان جاری کرے گا جس میں اس جوڑے کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا جائے گا۔

ان کے بقول: ’گذشتہ دو ماہ ہم نے میڈیا بلیک آؤٹ رکھا تاکہ طالبان کو یہ یقین دلا سکیں کہ ہم ان کے عمل پر بھروسہ کرتے ہیں اور احترام کے جذبے سے خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ڈوٹی سٹریٹ چیمبرز نامی قانونی فرم نے اس معاملے میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندہ برائے تشدد سے رابطہ کیا ہے۔

پانچ ہفتے قبل بچوں کا اپنی والدہ سے آخری بار رابطہ ہوا تھا جس میں انہوں نے بتایا کہ ان کے شوہر کی طبیعت تیزی سے بگڑ رہی ہے۔ بعد ازاں ایک ماہر امراض قلب نے آن لائن طبی معائنہ کیا اور امکان ظاہر کیا کہ پیٹر رینالڈز کو یا تو خاموش ہارٹ اٹیک ہوا ہے یا فالج کا اثر۔

انہوں نے مزید بتایا کہ پیٹر رینالڈز کے چہرے کی جلد سرخ ہو چکی ہے جو چھل رہی ہے اور خون بہہ رہا ہے اور یہ اس بات کی علامت ہو سکتی ہے کہ ان کا جلد کا کینسر دوبارہ لوٹ آیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کی والدہ کو بھی شدید جسمانی کمزوری کا سامنا ہے۔ ان کے پاؤں سن ہو جاتے ہیں، جس کی ممکنہ وجہ خون کی کمی اور قید میں خوراک کی کمی بتائی گئی ہے۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ان کی صحت بگڑنے سے دل کی ناکامی کا خدشہ ہے۔

یہ جوڑا 1970 میں کابل میں شادی کے بندھن میں بندھا تھا اور رواں ہفتے انہوں نے قید میں اپنی شادی کی 55 ویں شادی کی سالگرہ منائی۔

بچوں کے مطابق آٹھ ہفتے قبل تک انہیں کابل کی پل چرخی جیل میں قید رکھا گیا تھا جہاں سے وہ روزانہ جیل کے صحن سے فون پر اپنے بچوں سے بات کرتے تھے۔ بعد ازاں انہیں انٹیلی جنس ادارے ’ڈی جی آئی‘ کے زیرِ انتظام مقام پر منتقل کیا گیا جہاں انہیں دو سے تین دن میں رہائی کی امید دلائی گئی، مگر اب دو ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اور کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

بچوں نے بتایا کہ اگرچہ ’ڈی جی آئی‘ کی جیل نسبتاً بہتر ہے لیکن ان کے والدین کے پاس بستر یا فرنیچر نہیں ہے اور وہ زمین پر گدے پر سوتے ہیں۔

برطانوی دفتر خارجہ کے عہدیداروں کو گذشتہ جمعرات کو جوڑے سے غیر معمولی طور پر ملاقات کی اجازت دی گئی تاکہ ان کی خیریت دریافت کی جا سکے۔

دفتر خارجہ کے ایک ترجمان نے بتایا: ’ہم ان دو برطانوی شہریوں کے اہل خانہ کی معاونت کر رہے ہیں جو افغانستان میں قید ہیں۔‘

اقوامِ متحدہ کی نمائندہ برائے انسدادِ تشدد ایلس ایڈورڈز نے پیر کو اپنے بیان میں کہا: ’ہمیں کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ اس ضعیف جوڑے کو قید میں رکھا جائے۔ ہم ان کی حراست کی وجوہات کے فوری جائزے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ایسے ذلت آمیز حالات میں ان کی قید غیر انسانی عمل ہے، خاص طور پر جب ان کی صحت نہایت نازک ہو چکی ہے۔ اگر انہیں بروقت طبی سہولت نہ ملی تو ناقابل تلافی نقصان یا موت کا خطرہ ہے۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا