کراچی، لاہور اور فیصل آباد کے چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدور نے جمعرات کو اعلان کیا ہے کہ اگر وفاقی حکومت نے ٹیکس قوانین کے متنازع سیکشن 37 اے اور بی کو واپس نہ لیا تو تاجر ملک گیر ہڑتال کی کال دیں گے۔
جمعرات کو کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے آڈیٹوریم میں شہر کی مختلف مارکیٹ ایسوسی ایشن کے دو درجن عہدیداران کے ساتھ پریس کانفرنس میں کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر جاوید بلوانی نے کہا کہ ٹیکس قوانین کے سیکشن 37 اے اور بی کے تحت پاکستان میں ٹیکس جمع کرنے والے ادارے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو دیے گئے غیر معمولی اختیارات کی مذمت کی۔
لاہور چیمبر آف کامرس کے صدر ابوذر شاد اور فیصل آباد چیمبر کے صدر ریحان نسیم بھرارا نے بھی بذریعہ ویڈیو لنک پریس کانفرنس میں شرکت کی۔
جاوید بلوانی نے اس موقعے پر کہا: ’ان متنازع سیکشنز سے ایف بی آر کو غیر معمولی اختیارات حاصل ہو گئے ہیں، جو کہ ہراسانی، بلیک میلنگ اور کاروباری عدم تحفظ کو فروغ دیں گے۔ ایف بی آر کو بغیر چیک اینڈ بیلنس کے گرفتاری کا اختیار زیادتی ہے، جو ایماندار ٹیکس دہندگان کو نشانہ بناتا ہے، جبکہ اصل چور محفوظ رہتے ہیں۔‘
انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ ’ان سیکشنز سے پاکستان کا بزنس فرینڈلی امیج متاثر ہوگا، سرمایہ کاری رک جائے گی اور کاروباری توسیع کے منصوبے تعطل کا شکار ہوں گے۔ اگر سیکشن 37 اے ختم نہ کیا گیا تو ملک میں سرمایہ کاری نہیں ہوگی۔‘
کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر نے مزید کہا کہ بجائے اُن لوگوں کے خلاف کارروائی کرنے کے جو جعلی انوائسز جاری کرنے میں ملوث ہیں، یہ قانون ٹیکس دہندگان کو غیر منصفانہ طور پر نشانہ بناتا ہے، جو پہلے ہی ٹیکس نیٹ میں شامل ہیں۔
انہوں نے نشاندہی کہ پاکستان کی معیشت کا صرف 40 فیصد حصہ دستاویزی ہے جبکہ 60 فیصد غیر رسمی ہے۔ ’40 فیصد دستاویزی میں سے بمشکل دو فیصد اس طرح کے غلط کاموں میں ملوث ہو سکتے ہیں جبکہ 98 فیصد رجسٹرڈ ٹیکس دہندگان مکمل طور پر ٹیکس کی پاسداری کرتے ہیں۔ پھر بھی چند مجرموں پر توجہ دینے کے بجائے تمام ٹیکس دہندگان کو متنازع سیکشن 37 اے اور 37 بی کے تحت ہراساں کیا جائے گا۔‘
بقول جاوید بلوانی، کراچی چیمبر نے ان اقدامات کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاجی مہم شروع کر دی ہے اور شہر بھر میں بینرز آویزاں کیے جا چکے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے وزیراعظم شہباز شریف سے اپیل کی کہ وہ تمام چیمبرز اور ایف بی آر افسران پر مشتمل ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دیں، جو بے ضابطگیوں کا جائزہ لے اور فوری اجلاس بلایا جائے۔
ساتھ ہی انہوں نے اعلان کیا: ’اگر ہمارے مطالبات پر عمل کرتے ہوئے حکومت نے متنازع سیکشنز 37 اے اور بی فوری طور پر ختم نہ کیا تو کراچی، لاہور، فیصل آباد اور پشاور سمیت ملک بھر کے تاجر ملک گیر ہڑتال کی کال دے سکتے ہیں۔‘
جاوید بلوانی کے مطابق: ’بجٹ سے قبل 30 اناملیز (Anomalies) یعنی نئے ٹیکس قوانین یا مالیاتی پالیسیوں میں تضادات، غلطیوں یا غیر متوقع مسائل کی نشاندہی کی گئی تھی، جن میں سے پانچ سے چھ انتہائی سنگین نوعیت کی ہیں۔
’مگر حکومت نے ان میں سے کسی پر عمل کرنے کے بجائے سیکشن 37 اے اور بی متعارف کروا دیا، جس کے باعث دیگر مسائل کے ساتھ ٹیکس ریٹرن فائل کرنا بھی ممکن نہیں رہے گا۔‘
'جاوید بلوانی کے مطابق: ’حکومت نے بزنس اناملیز کمیٹی کی اتفاق رائے، قومی اسمبلی و سینیٹ کمیٹیوں کی سفارشات کو بھی مسترد کیا، جس پر کمیٹی ارکان نے احتجاجاً استعفے دیے اور واک آؤٹ کیا۔‘
انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں چیئرمین بزنس مین گروپ زبیر موتی والا نے کہا کہ ٹیکس قوانین کے متنازع سیکشن 37 اے، بی اور 34 کے تحت ایف بی آر کو دیگر اختیارات کے ساتھ کسی بھی معاملے پر کسی بھی تاجر کو گرفتار کرنے کا اختیار دینا تاجروں کو کسی صورت قبول نہیں ہوگا۔
زبیر موتی والا کے مطابق: ’ایف بی آر کو اس طرح لامحدود اختیارات کے بجائے حکومت تاجروں کے ساتھ بیٹھ کر لائحہ عمل بناتی کہ ٹیکس وصولی کو کیسے بڑھایا جائے، مگر ایسا نہیں کیا گیا۔‘
زبیر موتی والا نے کہا کہ سیکشن 37 اے کے تحت کوئی ایک بھی کارروائی پوری تاجر برادری میں ہلچل مچا دے گی۔ اس سے نہ صرف موجودہ کاروباری سرگرمیاں متاثر ہوں گی بلکہ جاری توسیعی منصوبے بھی رک جائیں گے۔
انہوں نے بعض سرمایہ کاروں کے خدشات کے بارے میں خبردار کیا، جنہوں نے واضح طور پر کہا ہے کہ اگر سیکشن 37 اے برقرار رہا تو وہ پاکستان کی معیشت کے کسی بھی شعبے میں سرمایہ کاری نہیں کریں گے۔