فیڈرل بیورو آف ریونیو (ایف بی آر) نے ہفتے کو پارلیمان کے ایوان بالا (سینیٹ) کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو بتایا کہ عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) آئندہ مالی سال 25-2024 کے بجٹ میں 749 اشیا پر ٹیکس چھوٹ ختم کروانے کا خواہش مند ہے۔
پارلیمنٹ ہاؤس میں ہونے والے قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں ایف بی آر کے حکام نے بتایا کہ آئی ایم ایف کی خواہش کے برعکس حکومت نے صرف 337 اشیا پر ٹیکس چھوٹ ختم کرنے کی تجاویز کو آئندہ مالی سال کے بل کا حصہ بنایا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر فاروق نائک نے اس موقعے پر کہا کہ ’یہ سیدھا سیدھا آئی ایم ایف کا بجٹ ہے اور آئی ایم ایف کی ہر بات مانی جا رہی ہے۔‘
آج چیئرمین کمیٹی سینیٹر سلیم مانڈوی والا کے زیر صدارت اجلاس کا آغاز ہوا تو بچوں کے دودھ کے ڈبوں پر ٹیکس عائد کرنے کا معاملہ زیر غور آیا۔
وفاقی بجٹ سینیٹ میں پیش کیے جانے کے بعد یہ کمیٹی کا 11واں اور خصوصی طور پر بجٹ پر بحث کا آخری اجلاس تھا۔
کمیٹی نے شیرخوار بچوں کے دودھ کے ڈبے پر 18 فیصد سیلز ٹیکس اور سٹیشنری پر 10 فیصد سیلز ٹیکس نہ لگانے کی تجویز دیتے ہوئے حکومت کی سفارشات کو مسترد کر دیا۔
ایف بی آر کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ ’آئی ایم ایف دودھ پر 40 ارب روپے اور سٹیشنری پر سات ارب روپے کا ٹیکس لگانا چاہتا ہے اور مجموعی طور پر 107 ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ ختم کروانا چاہتا ہے۔‘
ایف بی آر حکام نے کمیٹی کو مزید بتایا کہ نئے بجٹ میں ہسپتالوں کی سیلز کے اوپر بھی 18 فیصد جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) کی تجویز ہے، جب کہ امراض قلب، دل کی سرجری، نیورو ویسکولر، اینڈیو سرجری، اینڈو سکوپی، یورولوجی، گائناکالوجی، ڈسپوزیبل اور دیگر طبی سامان پر 18 فیصد جی ایس ٹی عائد کرنے کی تجویز ہے۔
ایف بی آر حکام نے مزید بتایا کہ افغانستان سے خوراک کی درآمد پر بھی ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے۔
سینیٹر فاروق نائک نے کہا ہر چیز پر ٹیکس لگا رہے ہیں، ایسے میں گورکن پر بھی ٹیکس لگا دیں۔ ’کراچی میں قبر بھی معاوضہ دے کر ملتی ہے، شکر ہے آئی ایم ایف کو اس بات کا نہیں پتہ۔‘
سینیٹر انوشہ رحمان نے سوال اٹھایا کہ ’کیا فاٹا پاٹا کے ٹیکس چھوٹ کے لیے آئی ایم ایف نے کچھ نہیں کہا؟ ’بطور پنجابی سینیٹر میں پوچھتی ہوں کیا سارے ٹیکس پنجاب کے لیے ہیں؟‘
سینیٹر ذیشان خان زادہ نے کہا فاٹا پاٹا کی ٹیکس چھوٹ کا غلط استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
’سرکاری نوکریاں دینے کی بجائے علاقے میں انڈسٹری لگائی جائے۔ مینوفیکچررز کہتے ہیں کہ ٹیکس چھوٹ خام مال کے لیے دی گئی۔ یہ خام مال بھی یہاں کے مینوفیکچررز کو بیچا جا رہا ہے۔‘
جب سینیٹر انوشہ رحمان نے کہا سرجری کے آلات پر 18 فیصد ٹیکس لگا رہے ہیں، تو ایف بی آر حکام نے جواب دیا کہ سرجری اشیا پر پہلے ٹیکس چھوٹ تھی اب 18 فیصد ٹیکس کی تجویز ہے۔
نجی ہسپتال سیلز ٹیکس ادا نہیں کرتے: ایف بی آر
قائمہ کمیٹی نے آج اجلاس کے دوران خیراتی اور فلاحی ہسپتالوں پر سیلز ٹیکس کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ان پر سیلز ٹیکس چھوٹ ختم کی جائے۔
ایف بی آر حکام نے کہا کہ سرکاری ہسپتال سیلز ٹیکس ادا کر رہے ہیں، جب کہ ملک کے بڑے اور مہنگے ہسپتال ٹرسٹ پر قائم ہیں۔
ایف بی آر حکام نے انکشاف کیا کہ ’پرائیوٹ ہسپتال سیلز ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ ٹرسٹ پر قائم ہسپتالوں کی ٹیکس چھوٹ ختم کی جا رہی ہے۔ بڑے بڑے پرائیوٹ ہسپتال اس میں شامل ہیں۔‘
سینیٹر فاروق نائک نے کہا ٹرسٹ کے نام پر بنے ہسپتالوں نے ڈاکٹرز بھی بٹھائے ہوئے ہیں جو بھاری فیس لیتے ہیں جبکہ لیبارٹری مہنگی فیس چارج کرتے ہیں۔
چئیرمین کمیٹی سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ ’ایک ٹرسٹی ہسپتال نے 20 لاکھ روپے کا بل ادا کرنے تک میت ورثا کو نہیں دی۔ اگر سرکار ٹیکس کی چھوٹ دیتی ہے تو ان ہسپتالوں کا آڈٹ بھی کرے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بعد ازاں کمیٹی نے ’غیر منافع بخش یا فلاحی اداروں کے نام پر فائدہ اٹھانے والے اداروں‘ کا ریکارڈ طلب کر لیا۔
گلی محلوں کی بیکری کی ڈبل روٹی پر سیلز ٹیکس نہیں ہو گا
کمیٹی کو بتایا گیا کہ بجٹ میں برانڈ کی ڈبل روٹی اور رس پر 10 فیصد سیلز ٹیکس لگایا گیا ہے۔
اس پر سینیٹر فاروق نائک نے رد عمل دیتے ہوئے کہا ’کمپنیوں کے پیکٹ میں سویوں، شیر مال، بن اور رس پر بھی سیلز ٹیکس لگا دیا گیا ہے، غریب آدمی اب عید پر بھی سویاں نہیں کھا سکے گا۔‘
ٹیکس حکام نے جواب دیا کہ گلی محلوں کی بیکری کی ڈبل روٹی پر سیلز ٹیکس عائد نہیں ہو گا۔
ایف بی آر حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ مرغی کی فیڈ پر 10 فیصد کی ٹیکس چھوٹ ختم کی جا رہی ہے، جب کہ گائے اور بھینس سمیت لائیو سٹاک فیڈ پر بھی 10 فیصد سیلز ٹیکس عائد کیا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ مرغی اور گائے کی فیڈ پر 10 فیصد سیلز ٹیکس سے 47 ارب روپے حاصل ہوں گے۔
سینیٹر انوشہ رحمان نے کہا مرغی کی فیڈ مہنگی ہونے سے مرغی 480 روپے کی بجائے 580 روپے کلو ہو جائے گی۔
بعد ازاں کمیٹی نے مرغی فیڈ پر ٹیکس چھوٹ ختم کرنے کی حمایت کر دی۔
کمیٹی اراکین نے پرسنل کمپیوٹر، لیپ ٹاپ اور نوٹ بکس پر 10 فیصد ٹیکس پر تحفظات کا اظہار کیا۔ سینیٹر انوشہ رحمان نے کہا ’ایک طرف حکومت لیپ ٹاپ دے رہی ہے تو دوسری طرف آپ ٹیکس بڑھا رہے ہیں۔‘
اراکین نے موبائل فون پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے کی تجویز کی بھی مخالفت کی۔
سینیٹر انوشہ رحمان نے کہا ایسا کرنے سے 200 ڈالر سے کم قیمت کے فونز مہنگے ہو جائیں گے۔ کمیٹی نے 200 ڈالر قیمت تک والے فون پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے کی تجویز مسترد کر دی۔