سعودی عرب میں ہزاروں سال پرانی پراسرار صحرائی پتنگیں

مانا جاتا ہے کہ کثیر الزاویہ، قیف اور تکونی شکل کی ان تعمیرات کا تعلق پتھر کے دور کے آخری حصے سے ہے۔

صحرائی پتنگیں جدید اور انجینیئرنگ کے اعتبار سے عمدہ تعمیرات ہیں جنہیں بنانے کا حقیقی مقصد آج تک ایک راز ہے (تصاویر عرب نیوز)

مدینہ شہر کے مشرقی حصے کو عبور کر کے حائل کے علاقے میں داخل ہوا جائے تو سعودی عرب کی قدیم تہذیبوں کی پراسرایت مزید گہری ہو جاتی ہے کیونکہ اس علاقے میں مزید ’صحرائی پتنگیں‘ ملتی ہیں۔

عرب نیوز کے مطابق پتھروں کی مدد سے بنائے گئے دائرے اور یہ تعمیرات سعودی عرب کے مغربی علاقے میں پائی جاتی ہیں۔

فضائی جائزے میں صحرا النفود کی ریت میں مزید ’صحرائی پتنگوں‘ کا پتہ چلا ہے۔

مانا جاتا ہے کہ کثیر الزاویہ، قیف اور تکونی شکل کی ان تعمیرات کا تعلق پتھر کے دور کے آخری حصے سے ہے۔

ان کی بڑی تعداد مغرب میں خیبر کے آتش فشانی لاوے کے میدانوں میں پائی جاتی ہے جن کا تعلق چوتھی پانچویں صدی قبل از مسیح سے ہے۔

حائل کے علاقے کی تعمیرات اس کے شمالی مغرب میں واقع قصبے الشويمس کے قریب قاع السباق کے علاقے میں پائی گئی ہیں۔

5800 سے زیادہ تعداد میں صحرائی پتنگیں آرمینیا، سعودی عرب، اردن، قازقستان میں دریافت ہوئی ہیں۔ ان سب سے زیادہ تعداد ڈھائی ہزار شام میں ہیں۔

سعودی عرب کے وسیع صحراؤں میں چھپے خزانے نظروں سے اوجھل اور دریافت کیے جانے کے منتظر ہیں۔ صحرائی پتنگیں جدید اور انجینیئرنگ کے اعتبار سے عمدہ تعمیرات ہیں جنہیں بنانے کا حقیقی مقصد آج تک ایک راز ہے۔

شاہ سعود یونیورسٹی میں قدیم تاریخ کی پروفیسر ڈاکٹر سلمیٰ حاساوی نے عرب نیوز کو بتایا کہ پتھروں کی مدد سے بنائے گئے دائرے، پتنگیں اور دوسری تعمیرات ملک بھر میں بڑی تعداد میں پائی جاتی ہیں۔

مدینے کے شمال (خیبر، فدک اور العلا) میں بہت سی پتنگیں پائی گئی ہیں۔ پتھر کی بڑی بڑی سلوں کی مختلف شکلیں ہیں جن میں دائرہ، تکون، انڈہ، پتھروں کے ڈھیر، مربع اور قوسیں شامل ہیں۔

حساوی کا کہنا تھا کہ یہ پتنگیں جیومیٹری کی اشکال ہیں جو ہو سکتا ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی ہوں یا نہ ہوں۔

یہ تعمیرات کسی عمارت کا حصہ یا الگ سے تعمیر کی گئی ہو سکتی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ ایک دوسرے کے اوپر رکھے گئے پتھر ہوں جو حجم اور شکل کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہوں۔

ڈاکٹر حساوی کے بقول: ’بعض تکونوں کی بنیاد چھوٹی، بڑی، کھوکھلی، متوازی، متواتر، اور راس میں مخالف سمت ہے۔ کھوکھلے، بے قاعدہ، چپٹے اور ایک دوسرے پر ٹکے ہوئے پتھروں والے مرکزی مقامات والے دائرے بھی ہیں۔

’دوسری اشکال میں دائرے، وسطی مربعے، چھوٹے بڑے انڈے، دائروں کی شکل میں ایک دوسرے پر رکھے گئے انڈے کی شکل کے پتھر اور مربعے، بے قاعدہ مربعے، اندر سے خالی اور بے قاعدہ تکونیں اور ایک دوسرے پر رکھی گئی تکونیں شامل ہیں۔‘

حساوی کا مزید کہنا تھا: ’اسی طرح دائروں کے وسط اور سروں پر، عمارتوں اور دائروں کے گرد اور سیدھی لکیر کی شکل میں نوکیں پائی جاتی ہیں۔

اس کے علاوہ غیر واضح اشکال سمیت ٹیڑھی میڑھی، متوازی، ایک دوسرے جڑی ہوئی اور الگ الگ قوسوں کی شکل میں نوکیں موجود ہیں۔‘

1976 کے آثار قدیمہ کے ایک جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ پتنگیں وادی سرحان سے لے کر حائل کے علاقے تک پھیلی ہوئی ہیں۔

ایک سال بعد معلوم ہوا کہ یہ علاقے جنوب میں الکہیفیہ کے نواحی علاقے کی طرف کھلتا ہے۔ پتنگوں کے پھیلاؤ سے ان کے ڈھانچے پر موسمی اثرات اور ایک علاقے کے اگلے علاقے سے مختلف خصوصیات کا پتہ چلتا ہے۔

ڈاکٹر حساوی کے مطابق: ’ان اشکال کے ایک دوسرے سے مختلف انداز میں تعمیر کیے جانے کا انحصار اس علاقے کے مختلف ہونے پر جہاں وہ پائی گئیں۔

’یہ تجارتی راستے، قافلوں کی رہنمائی کے لیے بنائی نشانیاں یا بعض علاقوں میں رکھے گئے عبادت کے مقامات، رہائشی علاقے کی علامت، تدفین کا مقام یا ایسی تعمیر ہو سکتی ہے جو شکارکے لیے استعمال کی جاتی تھیں۔‘

حساوی نے اس جانب اشارہ کیا ہے کہ ان دائروں اور پتنگوں کا خیبر، فدک، العلا، حائل اور مکہ تک نخلستانوں، تالابوں اور بستیوں کے گرد زیادہ تعداد میں پائے جانے سے ظاہر ہوتا ہے کہ تجارتی قافلوں کی آرام گاہیں تھیں۔

خاص طور پر تب سے جب سے شاہراہ ریشم کو فارس سے آنے والی ثانوی سڑک کے ذریعے جزیرہ نمائے عرب کے شمالی حصے سے جوڑا گیا۔

حساوی کے مطابق ثمرقند سے آنے والی سڑک فارس اور بعد میں مرو (Merv) جاتی ہے۔ یہ ایک چوراہا ہے۔ یہ راستہ تفسن کی طرف جاتے ہوئے میسوپوٹیمیا میں دریائے فرات سے جا ملتا ہے اور بعد ازاں پالمیرا کی طرف چلاتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کے بعد بحیرہ روم کے ساحلوں کے ساتھ یورپ تک جاتا ہے۔ حساوی کے بقول: وجہ جس کی بنیاد پر تاجروں نے براستہ شمالی جزیرہ نمائے عرب سے گزرنے والی شاہراہ ریشم کو ترجیح دی وہ اس جزیرہ نما کے مکینوں کی طرف سے تجارتی قافلوں کو فراہم کیا جانے والا تحفظ اور آسان زمینی راستے تھے جو تجارتی قافلوں کے گزرنے کے لیے بہتر اور زیادہ محفوظ تھے۔‘   

انہوں نے اس جانب بھی اشارہ کیا ہے کہ دوسری سڑک مصر میں قنا کی بندرگاہ سے شروع ہو کر سلطنت حضرموت کے دارالحکومت شبوہ تک جاتی تھی جہاں سے وہ جدید دور کے یمن میں قائم سلطنت قتبان، سبا اور مین کی طرف چلی جاتی تھی۔

حساوی کے مطابق ایک امریکی تحقیق میں پتہ چلا ہے کہ العلا میں پائی جانی والی پتنگیں دریائے نیل کے کنارے پر واقع قدیم مصری شہر الجیزہ کے اہرام اور برطانیہ میں سٹون ہینج کے دائروں سے بھی زیادہ قدیم ہیں جو سات ہزار سال پرانے ہیں۔

حساوی کے بقول: ’ان دائروں اور پتنگوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ جزیرہ نما خطے کی قدیم تہذیبیں کتنی ترقی یافتہ تھیں اور ان کی جڑیں ان زمین میں کتنی گہری تھیں جو آج سعودی عرب ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ