آج سے ایک لاکھ 20 ہزار سال پہلے موجودہ شمالی سعودی عرب میں انسانوں کے ایک چھوٹے سے گروہ نے ایک جھیل کے کنارے رک کر پانی پیا اور خوراک تلاش کی۔ اسی جگہ اونٹ، بھینسیں اور ہاتھی بھی آئے تھے اور وہ آج کے ان جانوروں کے مقابلے پر کہیں بڑے تھے۔
ممکن ہے کہ ان لوگوں نے ان جانوروں کا شکار کیا ہو، لیکن وہ یہاں زیادہ رکے نہیں، بلکہ انہوں نے اس جگہ کو لمبے سفر کے پڑاؤ کے طور پر استعمال کیا۔
یہ وہ منظرنامہ ہے جسے بدھ کو مشہور جریدے ’سائنس ایڈوانسز‘ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے سائنس دانوں نے تخلیق کیا ہے۔ ان سائنس دانوں نے موجودہ سعودی عرب کے صحرائے نفود میں انسانوں اور جانوروں کے قدموں کے نشانوں پر تحقیق کی ہے جس سے ان راستوں پر روشنی پڑتی ہے جن سے گزر کر انسان افریقہ سے نکلا اور بقیہ دنیا میں پھیل گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آج جزیرہ نما سعودی عرب بڑی حد تک وسیع و عریض بے آب و گیاہ صحراؤں پر مشتمل ہے جو اس زمانے کے انسان کے لیے جان لیوا ثابت ہوتے۔ لیکن پچھلے ایک عشرے میں ہونے والی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ماضی میں ایسا نہیں تھا اور ایک زمانہ ایسا تھا جب سعودی عرب کہیں زیادہ سر سبز و شاداب تھا۔
یونیورسٹی آف لندن کے سائنس دان اور اس تحقیق کے شریک مصنف رچرڈ کلارک ولسن کہتے ہیں: ’ماضی کے ایک دور میں اس جزیرہ نما میں پائے جانے والے صحراؤں کی جگہ گھاس کے میدان، تازہ پانی کی جھیلیں اور دریا تھے۔‘
یہ نقشِ پا جرمنی کے میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ کے سائنس دان میتھیو سٹیورٹ نے 2017 میں اپنی پی ایچ ڈی کی تحقیق کے دوران ایک قدیم جھیل کی سوکھی ہوئی تہہ سے دریافت کیے تھے۔
وہ کہتے ہیں: ’نقشِ پا ایک منفرد قسم کے فاسل شواہد ہیں جو ماضی کی تصویر پیش کرتے ہیں۔ یہ چند گھنٹوں یا دنوں کی کہانی سناتے ہیں جو دوسرے کسی طریقے سے حاصل نہیں ہو سکتی۔‘
ان نقشِ پا کی عمر ایک خاص تکنیک سے معلوم کی گئی جس میں ریت کے چمکیلے ذروں پر روشنی پھینکی جاتی ہے اور ان سے حاصل ہونے والی توانائی ناپ کر عمر کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔
اس مقام سے ملنے والے سینکڑوں نقشِ پا میں سے سات ایسے ہیں جنہیں یقین سے انسانی کہا جا سکتا ہے۔ ان میں سے چار ایسے ہیں جن کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ دو یا تین انسانوں کے ہیں جو اکٹھے سفر کر رہے تھے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ نقشِ پا موجود انسانوں کے ہیں، نہ کہ نی اینڈرتھال کے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس زمانے میں اس علاقے میں نی اینڈر تھال موجود نہیں تھے، اس کے علاوہ ان نقشِ پا کے سائز سے ان کے مالک کے وزن اور قد کا جو اندازہ لگایا گیا ہے وہ بھی جدید انسان کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
سٹیورٹ نے کہا، ’ہم جانتے ہیں کہ انسان اور جانور اس جھیل کے کنارے ایک ہی وقت میں موجود تھے۔ البتہ یہاں سے پتھر کے اوزار نہیں ملے۔‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان یہاں زیادہ دیر نہیں رکے۔
وہ کہتے ہیں، ’ایسا لگتا ہے کہ یہ انسان یہاں پانی لیے آئے تھے‘ اور شاید انہوں نے جانوروں کا شکار بھی کیا ہو۔
اس کے علاوہ یہاں سے 233 فاسل بھی ملے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ جگہ شکاری جانوروں کی آماج گاہ تھی۔
میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ کے مائیکل پیٹرالگیا کہتے ہیں، ’ہاتھیوں اور دریائی گھوڑوں جیسے بڑے جانوروں کی موجودگی اور گھاس کے کھلے میدانوں اور پانی کے ذخیروں کی موجودگی کی وجہ سے یہ مقام افریقہ سے نکل کر ایشیا آنے والے انسانوں کے لیے خاصا پرکشش رہا ہو گا۔‘