نیشنل انکوبیشن سینٹر اور’گرو ٹوگیدر‘ نامی سٹارٹ اپ کے اشتراک سے فیصل آباد میں پہلی مرتبہ ’جائنٹ لڈو‘ کا کھیل متعارف کروایا گیا ہے۔
اس کے لیے تقریباً 12 فٹ چوڑی اور 12 فٹ لمبی لڈو تیار کی گئی ہے، جس میں روایتی گوٹیوں کو لڈو کھیلنے والے کھلاڑیوں سے تبدیل کرکے اسے مزید دلچسپ بنا دیا گیا ہے۔
اس کھیل کو متعارف کروانے والے سٹارٹ اپ کے پروگرام منیجر ڈاکٹر احمد محی الدین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ہمارا آئیڈیا یہ تھا کہ لڈو میں کچھ اختراع کی جائے اور ہم اسے بڑے سکیل پر لے کر جائیں، جس میں لڈو کی گوٹیوں کی جگہ پر انسان ہوں اور وہ ایک بڑے ڈائس کے ساتھ کھیلیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ اس کھیل میں بہت سی اہم سکلز استعمال ہوتی ہیں جن میں کمیونکیشن، ٹیم ورک اور لیڈر شپ شامل ہے۔
’یہ وہ سکلز ہیں جن پر نوجوان حقیقت میں عمل کرکے رئیل ٹائم میں تجربات کے ذریعے سیکھنے کے فریم ورک میں رہتے ہوئے یہ ساری چیزیں سیکھتے جاتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس پورے ایونٹ کا مقصد یہ تھا کہ نوجوانوں کو ایک جگہ اکٹھا کیا جائے اور ان کے اندر تخلیقی صلاحیت اور لیڈرشپ کی صلاحیت کو پروان چڑھایا جائے۔
’یہ ہمارا مقصد ہے اور اسی وجہ سے ہم یوتھ کے ساتھ کام کرتے ہیں تاکہ بہت سی اہم صلاحیتوں کو ان کے اندر پروان چڑھایا جا سکے اور جتنے بھی نیشنل انکیوبیشن سینٹر فیصل آباد میں سٹارٹ اپ انکوبیٹڈ ہیں، ان کے لیے بھی یہ ایک تخلیقی اور مائنڈ گیم ہے، جو کہ ایک تفریح بھی ہے۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’جین زی‘ کو سکھانے کے لیے ضروری ہے کہ انہیں جو بھی کچھ سکھایا جائے، اس میں تفریح کا عنصر ہونا ضروری ہے اور اس لیے ان کی کمپنی کا نظریہ ہے کہ ’لرن ٹو گیدر، فن ٹو گیدر اینڈ لیٹس گرو ٹوگیدر‘ یعنی (ایک ساتھ سیکھیں، ایک ساتھ تفریح کریں اور ایک ساتھ پروان چڑھیں)۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈاکٹر احمد محی الدین کے مطابق سٹارٹ اپ ایکو سسٹم اسی چیز کا نام ہے کہ آپ کسی مسئلے کا حل پیش کریں یا پہلے سے موجود کسی پروڈکٹ میں کچھ ویلیو ایڈ کریں یا اس میں کوئی نئی اختراع کریں۔
’جیسے ہم نے ایک چھوٹی سی لڈو کو ایک بڑے سکیل پر بنا دیا تو اس طرح کے ایونٹ تجسس اور تخلیقی سوچ پیدا کرتے ہیں۔ لوگوں کو نئے نئے آئیڈیاز ملتے ہیں، وہ ایک دوسرے سے اپنے تجربات شیئر کرتے ہیں، نیٹ ورکنگ ہوتی ہے، بہت سارے لوگ آپس میں ملتے ہیں اور ٹیم بناتے ہیں جو کہ پھر مسائل کا حل پیش کرتے ہیں اور این آئی سی فیصل آباد انہیں انکوبیٹ کرتا ہے۔‘
جائنٹ لڈو کے کھیل میں شریک قاسم سہیل کا کہنا تھا کہ انہیں اس میں حصہ لے کر بہت مزہ آیا۔
’یکھیں ہم لوگ کیا کرتے ہیں کہ ڈیجیٹلی لڈو کھیلتے ہیں، لیکن ہمارا وہ جو ہیومن انٹرایکشن ہوتا ہے یا وہ جو جذبات ہوتے ہیں ایک دوسرے کے، وہ ہم لوگ نہیں سمجھ پاتے کہ بھئی اس لمحے کو ہم کیسے انجوائے کر پائیں۔ ٹھیک ہے ڈیجیٹلی ہم ایک دوسرے کو ایموجی بھی سینڈ کر دیتے ہیں، ہی ہی ہا ہا لیکن کہہ لیں کہ اس لمحے میں وہ مزہ نہیں ہے، جو اس جائنٹ لڈو گیم میں ہمیں آیا ہے۔‘
جائنٹ لوڈ میں حصہ لینے والی زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کی طالبہ ردا نیاز کا کہنا تھا: ’میرے خیال میں یہ فیصل آباد میں پہلی مرتبہ ہوا ہے اور طلبہ کے لیے ایک اچھا موقع ہے کہ وہ نیٹ ورکنگ کے لیے سوشلائز کریں، بہت دلچسپ تھا، نیا تجربہ تھا، نئے لوگ تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ یہ صرف کھیل نہیں ہے بلکہ اس میں حصہ لینے سے طلبہ بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
’بزنس کے ماحول میں جیسے سٹارٹ اپ کام کرتے ہیں، اس میں ٹیم بنتی ہے، گروپ ہوتے ہیں، پبلک سپیکنگ ہوتی ہے، آپ میں اعتماد پیدا ہوتا ہے تو یہ بہت اچھی سرگرمی ہے۔‘