پاکستانی سٹارٹ اپس کاشت کاری کو کیسے ڈیجیٹلائز کر رہے ہیں؟

پنجاب میں مختلف جگہوں پر پائلٹ پروجیکٹس کے کسانوں کو انٹرنیٹ تک مفت رسائی دی گئی ہے اور اس سے ان کے کام کرنے کے طریقے میں انقلابی تبدیلیاں آ رہی ہیں۔

زراعت سے منسلک کاروباری افراد پاکستان کے کسانوں کو ڈیجیٹل دور میں لانے کی کوشش کرنے کے ساتھ فصلوں کی بہتر منصوبہ بندی کرنے اور مناسب وقت پر اپنی پیداوار تقسیم کرنے میں ان کی مدد کر رہے ہیں۔

عامر حیات بھنڈارا ایک کسان اور ایک ایسے ہی منصوبے کے مقامی کونسلر بھی ہیں۔ صوبہ پنجاب کے زرعی مرکز کے ایک گاؤں ’چک 26‘ میں خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ کچھ عرصہ قبل تک ’ہمارے پاس سب سے جدید مشین ٹریکٹر تھی۔‘

یہاں تک کہ پاکستان کے بہت سے حصوں میں موبائل فون پر کال کرنا بھی مشکل ہو سکتا ہے لیکن اکتوبر کے بعد سے چک 26 اور دیگر جگہوں پر پائلٹ پروجیکٹس کے کسانوں کو انٹرنیٹ تک مفت رسائی دی گئی ہے اور اس سے ان کے کام کرنے کے طریقے میں انقلابی تبدیلیاں آ رہی ہیں۔

زراعت پاکستان کی معیشت کی بنیاد ہے، جو مجموعی گھریلو پیداوار کا تقریباً 20 فیصد اور افرادی قوت کا تقریباً 40 فیصد ہے۔

ایک اندازے کے مطابق پاکستان دنیا میں گنے کا پانچواں سب سے بڑا پیداواری ملک ہے، گندم کا ساتواں سب سے بڑا اور چاول کا دسواں سب سے بڑا کاشت کار ملک ہے، لیکن یہ زیادہ تر انسانی محنت پر انحصار کرتا ہے اور تکنیک میں بڑی کاشت کار قوموں سے پیچھے ہے۔

گائے اور گدھے چک 26 میں ایک پویلین کی طرف جانے والی سڑک کے قریب آرام کر رہے ہیں۔ یہ پویلین ایک چھوٹی سی سیٹلائٹ ڈش کے ذریعے نیٹ ورک سے منسلک ہے۔

یہ ’ڈیجیٹل ڈیرہ‘ یا ملاقات کی جگہ ہے اور چھ مقامی کسان ایسے کمپیوٹرز اور ٹیبلٹس کو دیکھنے آئے ہیں جو موسم کی درست پیش گوئی کے ساتھ ساتھ بازار کی تازہ ترین قیمتیں اور کاشت کاری سے متعلق تجاویز فراہم کرتے ہیں۔

مکئی، آلو اور گندم اگانے والے 45 سالہ منیر احمد نے کہا کہ ’میں نے پہلے کبھی ٹیبلٹ نہیں دیکھا تھا۔‘

امجد ناصر ایک اور کسان ہیں جو امید کرتے ہیں کہ یہ منصوبہ مزید خوشحالی لائے گا۔ ان کے مطابق: ’پہلے ہم اپنے آباؤ اجداد یا اپنے اپنے تجربے پر انحصار کرتے تھے، لیکن یہ زیادہ درست نہیں تھا۔‘

ایپس اور ان کا فائدہ

کمیونٹی کی انٹرنیٹ تک رسائی بھنڈارا کی واحد اختراع نہیں ہے۔ تھوڑی دوری پر، ایک شیڈ کی دیوار پر، ایک جدید الیکٹرانک سوئچ سسٹم ایک پرانے واٹر پمپ سے منسلک ہے۔

اب انہیں صرف ایک ٹیبلٹ کی ضرورت ہے، جس سے وہ اپنی سو ہیکٹر (250 ایکڑ) رقبے پر محیط زرعی اراضی پر آبپاشی کو قابو کرسکتے ہیں، لیکن یہ بھی پاکستان کی وقفے وقفے سے بجلی کی فراہمی اور بے ترتیبیوں پر منحصر ہے۔

اس سال بھنڈارا کو امید ہے کہ دوسرے لوگ وہ تکنیک استعمال کریں گے، جو ان کے بقول پانی کی کھپت اور مزدوری کو کم کرے گی۔

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا: ’زراعت کو ڈیجیٹل کرنا ہی دیہی آبادی کی خوشحالی کا واحد راستہ ہے۔‘

اس سپلائی چین کے دوسرے سرے یعنی تقریباً 150 کلومیٹر (90 میل) دور لاہور میں درجنوں افراد ’تازہ‘ نامی سٹارٹ اپ کے گودام میں پھل اور سبزیاں ڈلیوری بائیکس پر لاد رہے ہیں جو کسانوں اور تاجروں کے درمیان رابطے کا کام کرتا ہے۔

صرف چار ماہ کے آپریشن کے بعد ادارہ لاہور اور کراچی کے تاجروں کو روزانہ تقریباً سو ٹن پیداوار فراہم کرتا ہے، جو ایک موبائل ایپ کے ذریعے اپنے آرڈرز دیتے ہیں۔

ریجنل مینیجر انعام الحق کا کہنا ہے کہ ’اس سے پہلے تاجروں کو اس دن کی قیمت پر بڑی مقدار میں مصنوعات خریدنے کے لیے صبح پانچ یا ساڑھے پانچ بجے اٹھنا پڑتا تھا اور پھر ان کی منتقلی میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔‘

تازہ کے دفتر میں چند ملازمین ان آرڈرز کا انتظام سنبھالتے ہیں لیکن کچھ وقت کے لیے اور خریداری فون پر ہی ہوتی ہے کیونکہ ابھی کسان سیکھنے کے مراحل میں ہیں۔

ادارے کے شریک بانی ابرار باجوہ کا کہنا ہے کہ کم عمر ادارہ ایک ’صدیوں پرانے‘ نظام سے بھی نمٹ رہا ہے، جسے سٹیک ہولڈرز تبدیل کرنے سے گریزاں ہیں۔

تاریخی سرمایہ کاری

ابرار کے شراکت دار محسن ذکا کا کہنا ہے کہ ناقص انداز سے چلائی جانے والی سپلائی چین کے ساتھ سفر کے دوران اکثر پھل اور سبزیاں گل سڑ جاتی ہیں، لیکن تازہ جیسی ایپس پورے نظام کو زیادہ موثر بناتی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لاہور کے علاوہ ’تازہ‘ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں پہلے سے ہی کام کر رہا ہے اور دارالحکومت اسلام آباد منتقل ہونے کی تیاری کر رہا ہے۔

شریک بانی نے بتایا کہ ایک ایسے وقت میں جب پاکستانی سٹارٹ اپس میں سرمایہ کاری ہو رہی ہے، 20 ملین ڈالر کی فنڈ ریزنگ مہم جاری ہے۔

پاکستانی سٹارٹ اپس میں غیر ملکی سرمایہ کاری گذشتہ سال 310 ملین ڈالرز سے تجاوز کر گئی تھی جو کہ رپورٹس کے مطابق 2020 کی سطح سے پانچ گنا اور مجموعی طور پر پچھلے چھ سالوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔

ایئر لفٹ نے جو سامان ضروریہ کی ڈیلیوری فراہم کرتی ہے، اگست میں ملک کے لیے تاریخ ساز 85 ملین ڈالرز اکٹھے کیے۔

کریم کے سابق ڈائریکٹر باجوہ نے بتایا کہ ’بہت ساری مارکیٹس پہلے ہی سیر ہو چکی ہیں جنہیں وینچر کے سرمایہ کار تلاش کر رہے ہیں جیسے کہ بھارت یا انڈونیشیا۔‘

کریم مقامی رائیڈ ہینڈلنگ ایپ ہے، جسے 2020 میں اوبر نے خرید لیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اب پاکستان توجہ اپنی جانب مبذول کروا رہا ہے اور زراعت ایک ایسا شعبہ ہے جو ’ٹیکنالوجی کے نقطہ نظر سے مکمل طور پر غیر استعمال شدہ‘ ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا