پاکستان میں کسی نہ کسی طور جمہوریت کی گاڑی گھسٹ رہی ہے۔ کیسے گھسٹ رہی ہے یہ سب بخوبی جانتے ہیں مگر خوشی اس بات کی ہے کہ اس سست رو پہ جمہوریت ہی لکھا ہوا ہے۔
مشرف کے بعد ملک میں بظاہر کوئی آمریت نہیں آئی۔ وجوہات بہت سی ہیں۔
کالونیل فوج، کالونی کے مفادات کی حفاظت کے لیے بنائی گئی تھی اور کچھ پوسٹ کالونیل سکالرز کے نزدیک کالونیل دور ختم نہیں ہوا، اب بھی جاری ہے۔
یوں سمجھ لیجیے کہ پہلے ان کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے خود یہاں بیٹھنا پڑتا تھا، جو خاصا جان جوکھم کا کام تھا، کیا پتا کب، سالا جنگلی نیٹو، ٹوم ٹوم بجاتا، کالونیوں میں گھس آتا؟
سالہا سال کی انجینیئرنگ کے بعد اب کالونیاں اتنے محفوظ ہاتھوں میں ہیں کہ سب کشل منگل ہے، زیادہ چیں پٹاخ کرنے پہ مارشل لا لگانے کی سہولت ہر وقت میسر ہے۔
اب بھی وہ لوگ پائے جاتے ہیں جو مشرف کے مارشل لا کی حمایت کرتے ہیں اور ضیا دور کو کوستے ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ دیوار پھاند کے آنے والا، بندوق تان کے بات کرنے والا، بولنے والے کو کوڑے سے دھمکانے والا، نظریے کو ضرورت کے تابع کرنے والا، عوام کے مشورے کے بغیر ملک کے دریا، وسائل اور زمینیں اونے پونے کرنے والا، چاہے عمامے کی آڑ میں آئے چاہے جدت کا، مکھوٹا چڑھا کر آئے، رہتا غاصب ہی ہے۔
ہمارے سیاستدان جن پہ تنقید کرتے نہ تو کبھی میرا قلم رکا اور نہ زبان تھکی، کسی نہ کسی صورت اپنی، جان، مال اور عزت کی قربانی دے کر آج ملک کو اس جگہ لے آئے ہیں کہ سازگار حالات بنا کر بھی مارشل لا لگانے کی بجائے، صرف سیاستدانوں کی ادلا بدلی کی جاتی ہے۔
جس پارٹی یا سیاست دان پہ اتنا دباؤ ہوتا ہے کہ وہ برداشت نہیں کر سکتا وہ مقدمات سے بھاگ کے اقتدار کی کرسی پہ بیٹھ کے سکھ کا سانس لیتا ہے۔
دوسرے اتنی دیر جیل اور مقدمات بھگتتے ہیں۔ اطمینان یہ ہے کہ میوزک چاہے بینڈ پہ بج رہا ہے مگر یہ میوزیکل چیئر کھیلا سیاست دانوں کے درمیان ہی جا رہا ہے۔
مشرف ہی کے دور میں پاکستان کی 17 سیاسی جماعتوں نے ’میثاق جمہوریت‘ پہ دستخط کیے۔
جمہوریت کی تاریخ میں پوسٹ کالونیل آمریت سے نجات پانے کی یہ سب سے مربوط کوشش نظر آتی ہے۔ یہ معاہدہ ہر شخص کو پڑھنا اور موجودہ حالات میں اسے سمجھنا چاہیے۔
موٹے موٹے نکات یہ تھے کہ ’حکومت سازی کے لیے روایتی بادشاہ گر یعنی اسٹیبلشمنٹ سے ساز باز نہیں کی جائے گی، دفاعی بجٹ حکومت منظور کرے گی، خفیہ ایجنسیوں کے سیاسی شعبے بند کیے جائیں گے، فوج کو الاٹ کی گئی زمینوں کے کیسوں کا جائزہ لیا جائے گا۔
’فوج اور عدلیہ بھی اپنی جائیداد اور آمدن کے گوشوارے جمع کرانے کے پابند ہوں گے اور ایسی کمیٹیاں بنائی جائیں گی جو وسائل کے ضیاع کو روکنے کے اقدامات کریں گی۔‘
اس میثاق کی تفصیلات انٹرنیٹ پہ موجود ہیں۔ ان نکات پہ نظر ڈال کے بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ سیاسی عمل کو کالونیل وراثت سے آزاد کرانے کی کوشش ہے۔
اگر اس پہ عمل ہو جاتا تو جمہوریت کے بحالی اور ترقی کا عمل جو بے حد سست رفتاری سے چل رہا ہے ذرا تیز ہو جاتا۔
تیز ہو یا سست، جزوی یا کلی طور پہ معطل، مگر جمہوری عمل جاری رہتا ہے۔
فرد کی فکر پہ مکمل پہرہ عائد نہیں کیا جا سکتا، غیر فطری نظام تادیر نہیں چل سکتے جبکہ انہیں چلانے والے بھی اسی شاخ پہ بیٹھے ہوں جسے کاٹا جا رہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لیاقت علی خان، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، کتنے ہی گمنام شہدا، کتنے ہی کارکن، لیڈر جو چاہے کسی بھی نظریے سے تعلق رکھتے تھے، اس راہ میں شہید ہوئے۔
جمہوریت نہتے لوگوں کا کھیل ہے، جن کے پاس صرف نظریہ ہے اور نظریے کو سنگین کی نوک میں نہیں پرویا جا سکتا۔
قید و بند، جلا وطنی، معاشی و سماجی بائیکاٹ، ہر طرح کی سختیاں سہہ کر بھی جمہوریت کے متوالے اسی جگہ کھڑے ہیں۔
ان کے منشور جدا ہو سکتے ہیں، جھنڈوں کا رنگ اور نعروں کی زبان مختلف ہو سکتی ہے مگر مقصد سب کا ایک ہی ہے۔ عوام کی حکومت، عوام کے لیے۔
یہ بات کتنی خوش آئند ہے کہ ڈکٹیشن لینے سے انکار کرنے والے آج بھی کم سے کم اتنا تو کہہ رہے ہیں کہ مجھے کیوں نکالا؟
احتجاج کا اتنا جملہ بھی ان حالات میں بہت ہے۔ سیاسی جماعتوں کے درمیان مفاہمت کا کلچر، جمہوریت کی بقا کے لیے پروان چڑھا اور کوئی دن نہیں جاتے کہ ماضی کی لاڈلی اور حال کی زیر عتاب جماعت بھی باقی سیاسی جماعتوں کے ساتھ شامل ہو جائے گی۔
ممکن ہے ایک اور ’میثاق جمہوریت‘ پہ دستخط ہوں اور تب ڈھونڈے سے بھی پچھلے دروازے سے عوام کا حق لے کر دوڑنے والے دستیاب نہ ہوں۔
جس صبح کی خاطر جگ جگ سے ہم سب مر مر کر جیتے ہیں
جس صبح کے امرت کی دھن میں ہم زہر کے پیالے پیتے ہیں
ان بھوکی پیاسی روحوں پر اک دن تو کرم فرمائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔