سپریم کورٹ آف پاکستان میں 13 رکنی فل کورٹ بینچ کے سامنے پیر کو سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے معاملے پر اپیلوں کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائر عیسٰی نے ریمارکس دیے کہ ’پاکستان میں ہائبرڈ نظام ہے، مکمل جمہوریت نہیں۔‘
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا مزید کہنا تھا کہ ’ایک مفروضے پر چلتے ہیں کہ ایک سیاسی جماعت سو نشستوں پر انتخابات لڑتی ہے اور ہر سیٹ پر ایک ووٹ سے ہار جاتی ہے تو جمہوریت کی رُو سے وہ سو کی سو سیٹیں ہاری ہے، وہ خواتین اور اقلیتی نشستوں کی حقدار نہیں ہو گی، یہ ایک ہائبرڈ نظام ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’کوئی ایسی جماعت بھی ہو سکتی ہے، جسے سب سے زیادہ ووٹ ملے لیکن وہ اقلیت میں چلی جائے، جب ہم جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو اس سارے تناظر کو سامنے رکھنا چاہیے۔‘
سپریم کورٹ میں اس وقت چیف جسٹس سمیت 14 ججز ہیں، لیکن جسٹس مسرت ہلالی کی علالت کے باعث باقی میسر تمام ججز پر مشتمل فُل کورٹ تشکیل دی گئی ہے، جس نے آج اس معاملے پر سماعت کی۔
پیر کو سماعت کا آغاز ہوا تو سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی کے دلائل پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’کیا بینفشری جماعتوں میں سے کوئی عدالت میں سنی اتحاد کونسل کی حمایت کرتی ہے؟‘
عدالت میں موجود دیگر جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) پاکستان کے نمائندوں نے سنی اتحاد کونسل کی درخواست کی مخالفت کی، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’اس کا مطلب ہوا آپ سب اضافی ملی ہوئی نشستیں رکھنا چاہتے ہیں۔‘
چیف جسٹس پاکستان نے وکیل کامران مرتضیٰ سے استفسار کیا کہ ’آپ کی جماعت کا پورا نام کیا ہے؟‘ کامران مرتضیٰ نے جواب دیا ’ہماری جماعت کا نام جمیعت علمائے اسلام پاکستان ہے۔‘
جسٹس جمال مندوخیل نے کامران مرتضیٰ کو مخاطب کرکے کہا کہ ’اگر آپ کی جماعت سے ف نکال دیں تو کیا حیثیت ہو گی؟‘ وکیل کامران مرتضیٰ نے جواب دیا کہ ’پارٹی کا لیڈر نکل جائے تو کسی کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔‘
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے سماعت کے دوران دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے پی ٹی آئی کی جانب سے مخصوص نشستوں کی فہرستیں دی تھیں لیکن ہمارا آفس سیل ہے، اس لیے یہاں جمع نہیں کروا سکے لیکن وہ فہرستیں الیکشن کمیشن کے پاس موجود ہیں۔‘
جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’ایسے نہ کریں، اگر آپ اس سلسلے میں درخواست دے سکتے ہیں لیکن اس طرح کا بیان نہ دیں۔‘
جسٹس جمال خان مندوخیل نے فیصل صدیقی سے سوالات کیے: ’کیا انتخابی نشان چھن جانے سے ایک سیاسی جماعت کا وجود ختم ہو جاتا ہے؟ کیا سیاسی جماعت کے باقی حقوق بھی سلب ہو جاتے ہیں؟
’یہ جو تاثر دیا گیا کہ جنازہ نکل گیا تو کیا یہ تاثر درست تھا؟ کیا ایک سیاسی جماعت انتخابی نشان چھن جانے کے بعد اپنے امیدوار نامزد کر سکتی ہے؟ کیا ہم اخذ کر سکتے ہیں کہ پی پی ٹی آئی بدستور قائم تھی؟‘
جسٹس منیب اختر نے اس موقعے پر کہا کہ ’ہمارے سامنے ایک محدود سوال ہے، کیا مخصوص نشستیں ملنی چاہییں یا نہیں؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ ’الیکشن کمیشن نے 22 دسمبر 2023 کو تحریک انصاف کو انتخابی نشان سے محروم کر دیا تھا۔ پشاور ہائی کورٹ نے 10 جنوری 2024 کو الیکشن کمشین کا حکم نامہ کالعدم قرار دے دیا اور پھر الیکشن کمیشن کی اپیل پر سپریم کورٹ نے 13 جنوری کو ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا۔‘
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ ’کیا انتخابی نشان واپس ہونے سے سیاسی جماعت تمام حقوق سے محروم ہوجاتی ہے؟‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’پاکستان تحریک انصاف نے بطور جماعت الیکشن لڑا، الیکشن کمیشن سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی پارٹی ڈیکلئیر کر رہا ہے تو کیا پی ٹی آئی کو نہیں کر سکتا تھا؟
’اگر سنی اتحاد کونسل سے غلطی ہوئی تھی تو الیکشن کمیشن تصحیح کر سکتا تھا، فیصل صاحب یہ سارا معاملہ عوام کا ہے، عوام کو ان کے حق نمائندگی سے محروم نہیں کیا جا سکتا تھا۔‘
اس موقعے پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ’نوٹیفکیشن کے مطابق سنی اتحاد کونسل نے انتخابات میں کوئی نشست نہیں جیتی تھی، الیکشن کمیشن کے احکامات میں کوئی منطق نہیں لگتی۔
’الیکشن کمیشن ایک جانب کہتا ہے کہ سنی اتحاد الیکشن نہیں لڑی، ساتھ ہی اسے پارلیمانی جماعت بھی مان رہا، اگر پارلیمانی جماعت قرار دینے کے پیچھے پی ٹی آئی کی شمولیت ہے تو وہ پہلے ہو چکی تھی۔‘
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’اگر ایسا ہو جائے تو نشستیں پی ٹی آئی کو ملیں گی سنی اتحاد کو نہیں، عوام نے کسی آزاد امیدوار کو ووٹ نہیں دیا، عوام نے تو ایک پارٹی کو ووٹ دیا تھا۔‘
ججوں کے پے درپے سوالات پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل فیصل صدیقی کو جواب دینے سے روک دیا اور کہا: ’ہم آپ کو سننے بیٹھے ہیں، ہم اپنا فیصلہ کر لیں گے۔‘
چیف جسٹس نے مزید کہا: ’میں ایک بار ایک عدالت میں پیش ہوا تو کہا تھا کہ آپ اگر فیصلہ کر چکے ہوئے تو میں اپنا کیس ختم کرتا ہوں، آپ اپنے دلائل نہیں دیں گے تو مجھے کیا سمجھ آئے گی کہ آپ کی جانب سے کیا لکھنا ہے، میرا خیال ہے فیصل صدیقی صاحب ہم آپ کو سننے بیٹھے ہیں۔‘
جسٹس منیب اختر نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہ ’یہ ایک غیرذمہ دارانہ بیان ہے، فل کورٹ میں ہر جج کو سوال پوچھنے کا اختیار اور حق حاصل ہے۔‘
چیف جسٹس نے وکیل فیصل صدیقی سے کہا کہ ’فیصل صاحب آگے بڑھیں، میں نے ہلکے پھلکے انداز میں بات کی تھی۔‘
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہ ’الیکشن کمیشن نے آزاد امیدواروں کو سنی اتحاد کونسل میں شمولیت سے نہیں روکا، الیکشن کمیشن کہہ سکتا تھا کہ اس جماعت نے تو الیکشن نہیں لڑا، مگر الیکشن کمیشن نے ایسا نہیں کیا اور لوگوں کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کو تسلیم کیا۔ جب تین دن کا وقت گزر گیا تو اس کے بعد الیکشن کمیشن نے کہہ دیا کہ آپ کو تو مخصوص نشستیں نہیں ملنی، اب وہ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ آپ نے شمولیت کروائی اب میں اپنا حق مانگنے آیا ہوں۔ الیکشن کمشین پہلے شمولیت درست مانتا ہے اور بعد میں مخصوص نشستیں بھی نہیں دیتا، رکن اسمبلی کہہ سکتا ہے پہلے شمولیت سے روکا نہیں تو اب حق بھی دیں۔‘
اس موقعے پر جسٹس امین الدین خان نے سوال اٹھائے کہ ’کیا آزاد امیدوار کے لیے لازمی ہے کہ سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرے؟ آزاد امیدوار رجسٹرڈ سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کر سکتا ہے، مخصوص نشستیں خودکار نظام کے تحت تو نہیں مل سکتیں۔‘
وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’قانون کے مطابق مخصوص نشستوں کے لیے کسی جماعت کا الیکشن لڑنا ضروری نہیں، آزاد امیدوار بھی جماعت میں شامل ہوجائیں تو مخصوص نشستیں دی جانی ہیں، ماضی میں ایک قانون آیا تھا کہ مخصوص نشستوں کے لیے الیکشن لڑنا اور پانچ فیصد ووٹ لینا لازم تھا، وہ قانون بعد میں ختم کر دیا گیا تھا۔‘
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ ’سنی اتحاد کونسل نے الیکشن نہیں لڑا، حقیقی پوزیشن یہی ہے؟‘ جس پر فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ ’جی سارا تنازع یہی ہے، الیکشن کمیشن اس کے بعد سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی جماعت تسلیم کر چکا ہے۔‘
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے: ’میں کینیڈا کی سپریم کورٹ میں بیٹھا ہوا تھا، وہاں وکیلوں کے لیے ٹائمر لگا ہوا تھا ایک گھنٹے کا، میں حیران تھا کہ کیسے ایک گھنٹے میں دلائل بھی ختم ہو گئے اور ججز کے سوالات بھی، میں ان کے نظام سے بہت متاثر ہوا۔‘
اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ’میرے خیال سے وکیلوں کو تربیت کے لیے کینیڈا بھیجنا چاہیے۔‘
مزید دلائل کے لیے سماعت منگل (چار جون) کو دن ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کر دی گئی۔
سپریم کورٹ نے چھ مئی کو ہونے والی گذشتہ سماعت میں 14 مارچ کے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن آف پاکستان کا چار مارچ کا فیصلہ بھی معطل کردیا تھا، جس میں سنی اتحاد کونسل کو خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں سے محروم کردیا گیا تھا۔ عدالت عظمیٰ نے آئندہ سماعت پر الیکشن کمیشن کے حکام کو ریکارڈ سمیت حاضر ہونے کی ہدایت کی تھی۔
الیکشن کمیشن کا فیصلہ کیا تھا؟
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 53 کی شق چھ، الیکشن ایکٹ کے سیکشن 104 کے تحت فیصلہ سناتے ہوئے مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی سنی اتحاد کونسل کی درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔
الیکشن کمیشن نے اپنے تحریری فیصلے میں کہا تھا کہ ’سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ نہیں کی جا سکتیں، قانون کی خلاف ورزی اور پارٹی فہرست کی ابتدا میں فراہمی میں ناکامی کے باعث سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں۔
’سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کے لیے فہرست جمع نہیں کرائی۔ لہذا یہ مخصوص نشستیں خالی نہیں رہیں گی، یہ مخصوص متناسب نمائندگی کے طریقے سے سیاسی جماعتوں میں تقسیم کی جائیں گی۔‘
اس وقت ایوان میں پارٹی پوزیشن کیا ہے؟
قومی اسمبلی میں اس وقت 13 جماعتیں ہیں، جن میں سے چھ جماعتیں حکمران اتحاد میں شامل ہیں۔ حکمران اتحاد کی ان جماعتوں کی مجموعی نشستیں 208 بنتی ہیں جو دوتہائی اکثریت کے عدد 224 سے کم ہیں۔
آئینی ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت درکار ہو گی۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد مخصوص نشستیں باقی تمام جماعتوں میں تقسیم ہو گئیں تو حکمران اتحاد کو دو تہائی اکثریت مل گئی تھی جو کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ معطل کرنے کے بعد دوبارہ 208 ہو گئی ہیں۔
سنی اتحاد کونسل کی قومی و صوبائی اسمبلیوں کی کل مخصوص نشستوں کی تعداد 78 ہے۔ جس میں سے 23 قومی اسمبلی جبکہ باقی صوبائی اسمبلیوں کی ہیں۔