ثنا قتل کیس: ’پستول برآمد‘ کرنے والے پولیس اہلکار کا بیان ریکارڈ

کیس کی سماعت کے آغاز میں پراسیکیوشن کی جانب سے ایک پولیس اہلکار بطور سرکاری گواہ عدالت میں پیش ہوا۔

سوشل میڈیا سٹار ثنا یوسف کے قتل کا مرکزی ملزم عمر حیات 13 ستمبر 2025 کو اسلام آباد کی مقامی عدالت میں پیشی کے موقعے پر (سکرین گریب/قرۃ العین شیرازی)

اسلام آباد کی ایک مقامی عدالت میں جمعرات کو سوشل میڈیا سٹار ثنا یوسف قتل کیس کے پہلے گواہ کا بیان ریکارڈ کر لیا گیا ہے تاہم وکیل صفائی کی جانب سے اس پر جراح نہیں کی گئی۔

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محمد افضل مجوکا نے کیس کی سماعت کا آغاز کیا تو پراسیکیوشن کی جانب سے ایک پولیس اہلکار بطور سرکاری گواہ عدالت میں پیش ہوا۔

رواں برس دو جون کو اسلام آباد کی رہائشی اور سوشل میڈیا سٹار ثنا یوسف کو سیکٹر جی 13 میں قتل کر دیا گیا تھا۔

جس کے بعد پولیس نے قتل کے مرکزی ملزم عمر حیات کو 20 گھنٹے میں پنجاب کے شہر فیصل آباد سے گرفتار کر لیا تھا۔

اس کیس کے حوالے سے جمعرات کو ہونے والے سماعت میں پراسیکیوشن کی جانب سے ایک پولیس اہلکار کو بطور سرکاری گواہ عدالت میں پیش کیا گیا جو ایک کانسٹیبل تھا، جنہوں نے ثنا یوسف قتل کیس میں مرکزی ملزم عمر حیات کی جانب سے مبینہ قتل کے ’بعد سیکٹر جی 13 میں نالہ کے ساتھ پھینکے گئے ریوالور کو اٹھایا تھا۔‘

سماعت کے دوران پولیس اہلکار نے بتایا کہ ملزم کی نشاندہی پر ریوالور اسلام آباد کے علاقے میں ایک نالے کے نیچے سے برآمد کیا گیا تھا۔

اہلکار نے عدالت کو بتایا کہ ’ریکوری کے فوراً بعد موقع پر ہی ایک تحریری درخواست تیار کی گئی تھی، جس میں ریکوری کی تفصیلات شامل تھیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مذکورہ پولیس کانسٹیبل وہ درخواست تھانے لے کر گیا، جہاں فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) کا اندراج ہوا۔

دوسری جانب ملزم کے وکیل چوہدری رضوان نے جمعرات کو گواہ کے بیان پر جراح نہ کرنے کی استدعا کی، جس پر جج افضل مجوکا نے ریمارکس دیے کہ ’چونکہ یہ ایک فارمل گواہ ہے اس لیے ڈیفنس کو آج ہی جرح مکمل کرنی چاہیے تھی۔‘

تاہم وکیل رضوان چوہدری نے موقف اختیار کیا کہ ان کے پاس چارج فریم کی نقول موجود نہیں ہیں، اس لیے وہ آج جرح نہیں کر سکتے۔

بعد ازاں عدالت نے ملزم کے وکیل کو دو روز بعد آئندہ سماعت تک کا وقت دیا تاکہ وہ چارجز کا جائزہ لے کر جرح کی تیاری کر سکیں۔

’ہم نے نسبتاً رسمی نوعیت کے گواہان سے آغاز کیا‘

انڈپینڈنٹ اردو کو میسر معلومات کے مطابق ثنا یوسف قتل کیس میں مجموعی طور پر 31 گواہان ہیں، جن میں سے ایک کا بیان جمعرات کو ریکارڈ ہوا، جبکہ باقی 30 گواہان باقی ہیں۔

کیس کی اگلی سماعت دو روز بعد ہوگی جس میں مذکورہ گواہ پر جرح کی جائے گی اور مزید گواہان بھی پیش کیے جائیں گے۔

عدالتی نظیر کے مطابق عمومی طور پر گواہ کا بیان ریکارڈ ہونے کے فوراً بعد جرح ہوتی ہے۔

کیس کی سماعت کے بعد مقتولہ کے وکیل سردار قدیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’چونکہ آج ایویڈنس ریکارڈنگ کا پہلا روز تھا اس لیے ہم نے نسبتاً رسمی نوعیت کے گواہان سے آغاز کیا۔

’ہماری حکمت عملی یہ ہے کہ پہلے ان گواہان کے بیانات قلمبند کیے جائیں جن کا کردار وقوعہ کے بعد کی کارروائی سے متعلق ہے، تاکہ بعد میں براہ راست وقوعہ سے جڑے اہم گواہان کو پیش کیا جا سکے۔‘

ثنا یوسف کے وکیل کہتے ہیں کہ انہیں یہ ’اعتماد ہے کہ کیس کی تفتیش منظم اور ٹھوس بنیادوں پر کی گئی ہے۔ چالان میں شامل تمام شواہد کا بغور جائزہ لیا گیا ہے اور عدالت میں انہیں موثر انداز میں پیش کیا جائے گا۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان