اسلام آباد کی مقامی عدالت نے سوشل میڈیا سٹار ثنا یوسف کے قتل میں نامزد ملزم عمر حیات پر ہفتے کو فرد جرم عائد کر دی ہے۔
رواں برس دو جون کو اسلام آباد کی رہائشی 17 سالہ سوشل میڈیا سٹار ثنا یوسف کو سیکٹر جی 13 میں قتل کر دیا گیا تھا۔ بعد ازاں انسپکٹر جنرل اسلام آباد علی ناصر رضوی نے بتایا تھا کہ ملزم عمر حیات کو 20 گھنٹے میں پنجاب کے شہر فیصل آباد سے گرفتار کیا گیا۔ ملزم کے خلاف تھانہ سنبل میں قتل کا مقدمہ درج ہے۔
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد کے جج محمد افضل مجوکا کی عدالت میں آج اس کیس کی سماعت شروع ہوئی تو جج نے ملزم پر فرد جرم عائد کرتے ہوئے استفسار کیا: ’آپ پر الزام کیا کہ رواں برس دو جون کو سیکٹر جی 13 ون میں آپ مقتولہ ثنا یوسف کے گھر داخل ہوئے اور ان پر فائر کیا، جس کے بعد ان کی موت ہو گئی۔ آپ پر یہ الزام ہے کہ آپ نے ان کا قتل کیا، آپ اسے تسلیم کرتے ہیں یا انکار کرتے ہیں؟‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جس پر ملزم نے صحت جرم سے انکار کرتے ہوئے کہا: ’میں نے ایسا کوئی بھی جرم نہیں کیا، یہ سب جھوٹ ہے۔‘
جج نے دوسرا الزام دہراتے ہوئے کہا: ’آپ قتل کے بعد مقتولہ کا موبائل فون ساتھ لے گئے، آپ اسے تسلیم کرتے ہیں؟‘ جس پر ملزم نے جواب دیا کہ ان پر ’جو بھی الزامات لگائے گئے ہیں، وہ جھوٹ پر مبنی ہیں۔‘
بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت 25 ستمبر تک ملتوی کر دی۔
یاد رہے کہ کسی بھی ملزم پر فرد جرم عائد ہونے کے بعد اس کا ٹرائل شروع ہو جاتا ہے، جس میں شواہد/ ثبوتوں کا اکٹھا کیا جانا اور شہادتوں کا ریکارڈ ہونا بھی شامل ہے۔
سماعت کے اختتام پر ثنا یوسف کے والد یوسف حسن نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’امید ہے کہ مجھے انصاف ملے گا۔ مجھے اس جج پر پورا بھروسہ ہے۔‘
ملزم کیسے پکڑا گیا تھا؟
ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) اسلام آباد جواد طارق نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ مقتولہ کے پاس دو موبائل فون تھے، جن میں سے ایک ملزم اپنے ساتھ لے گیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ پولیس نے مشتبہ افراد کی فہرست بنائی، جو ثنا کے ساتھ رابطے میں تھے۔ ’مشتبہ افراد کو سماجی رابطے کی ویب سائٹس سے ڈھونڈا گیا اور ان کی تصاویر نکالی گئیں۔‘
ڈی آئی جی کے مطابق ہمارے پاس ملزم کی کافی سی سی ٹی وی فوٹیجز تھیں، جس پر ہم نے کام کیا، کہاں یہ شخص گیا یا بیٹھا یا کہاں سے نکلا۔ ان تصاویر کو فوٹیجز کے ساتھ میچ کرنا شروع کیا اور اندازہ لگایا کہ یہ ملزم ہو سکتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا: ’ہم اس لیے اندازے پر چل رہے تھے کیونکہ اس (ملزم) نے فوٹیجز میں ماسک پہنا ہوا تھا۔ جائے وقوع سے بھاگتے ہوئے اس نے ماسک پہن لیا تھا۔
’ہم نے دو سے تین (مشکوک) افراد کو فائنل کیا، ان میں سے اس پر زیادہ شک گیا کیونکہ اس کا (گھر) شہر سے باہر تھا۔
’اس کے بعد اس کا موبائل نمبر ڈھونڈا اور اسے ٹریک کیا اور پتہ ملنے پر ٹیم فیصل آباد روانہ کر دی۔ اس وقت تک ہمارا اندازہ تھا کہ یہی مطلوبہ شخص ہو گا۔‘
ڈی آئی جی کے مطابق دیگر مشکوک افراد پر وقت کے ساتھ ساتھ شک کم ہوتا چلا گیا۔
’ہم نے یقین کرنا شروع کر دیا کہ غالباً یہی شخص ہمارا ہدف ہے، جو بعد میں وہی شخص نکلا۔‘
ڈی آئی جی جواد طارق کے مطابق ملزم کو پکڑنے کے لیے سوشل میڈیا اور سیف سٹی کیمرے استعمال کیے گئے۔