ثنا یوسف قتل کیس: ملزم پر فرد جرم کی تاریخ مقرر

اسلام آباد کی مقامی عدالت ہفتے کو سوشل میڈیا سٹار ثنا یوسف کے قتل کیس میں گرفتار مرکزی ملزم عمر حیات پر فرد جرم عائد کرنے کے لیے 20 ستمبر کی تاریخ مقرر کر دی ہے۔ 

اسلام آباد کی مقامی عدالت نے ہفتے کو سوشل میڈیا سٹار ثنا یوسف کے قتل کیس میں گرفتار مرکزی ملزم عمر حیات پر فرد جرم عائد کرنے کے لیے 20 ستمبر کی تاریخ مقرر کر دی ہے۔ 

رواں برس دو جون کو اسلام آباد کی رہائشی ثنا یوسف نامی 17 سالہ سوشل میڈیا سٹار کو سیکٹر جی 13 میں قتل کر دیا گیا تھا۔ بعد ازاں انسپکٹر جنرل اسلام آباد علی ناصر رضوی نے بتایا تھا کہ ملزم عمر حیات کو 20 گھنٹے میں پنجاب کے شہر فیصل آباد سے گرفتار کیا گیا۔ 

ملزم کے خلاف تھانہ سنبل میں قتل کا مقدمہ درج ہے۔

اسلام آباد کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں آج اس کیس کی سماعت ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محمد افضل مجوکہ نے کی۔

پولیس نے ملزم عمر حیات کو عدالت میں پیش کیا، جہاں سماعت کے دوران ملزم کو چالان کی نقول فراہم کرتے ہوئے فرد جرم عائد کرنے کے لیے آئندہ تاریخ مقرر کر دی گئی۔ 

 

 

ملزم کیسے پکڑا گیا؟

ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) اسلام آباد جواد طارق نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ مقتولہ کے پاس دو موبائل فون تھے، جن میں سے ایک ملزم اپنے ساتھ لے گیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ پولیس نے مشتبہ افراد کی فہرست بنائی، جو ثنا کے ساتھ رابطے میں تھے۔ ’مشتبہ افراد کو سماجی رابطے کی ویب سائٹس سے ڈھونڈا گیا اور ان کی تصاویر نکالی گئیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈی آئی جی کے مطابق ہمارے پاس ملزم کی کافی سی سی ٹی وی فوٹیجز تھیں، جس پر ہم نے کام کیا، کہاں یہ شخص گیا یا بیٹھا یا کہاں سے نکلا۔ ان تصاویر کو فوٹیجز کے ساتھ میچ کرنا شروع کیا اور اندازہ لگایا کہ یہ ملزم ہو سکتا ہے۔‘

انہوں نے بتایا: ’ہم اس لیے اندازے پر چل رہے تھے کیونکہ اس (ملزم) نے فوٹیجز میں ماسک پہنا ہوا تھا۔ جائے وقوع سے بھاگتے ہوئے اس نے ماسک پہن لیا تھا۔ 

’ہم نے دو سے تین (مشکوک) افراد کو فائنل کیا، ان میں سے اس پر زیادہ شک گیا کیونکہ اس کا (گھر) شہر سے باہر تھا۔ 

’اس کے بعد اس کا موبائل نمبر ڈھونڈا اور اسے ٹریک کیا اور پتہ ملنے پر ٹیم فیصل آباد روانہ کر دی۔ اس وقت تک ہمارا اندازہ تھا کہ یہی مطلوبہ شخص ہو گا۔‘

ڈی آئی جی کے مطابق دیگر مشکوک افراد پر وقت کے ساتھ ساتھ شک کم ہوتا چلا گیا۔

’ہم نے یقین کرنا شروع کر دیا کہ غالباً یہی شخص ہمارا ہدف ہے، جو بعد میں وہی شخص نکلا۔‘

ڈی آئی جی جواد طارق کے مطابق ملزم کو پکڑنے کے لیے سوشل میڈیا اور سیف سٹی کیمرے استعمال کیے گئے۔ 

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان