غزہ کی ایک سالہ بچی غذائی قلت کا شکار ہو کر جان کی بازی ہار گئی۔ بچی کی جان بچانے کی کوشش کرنے والے امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ غزہ میں بھوک کا بحران بڑھ رہا ہے۔
ثنا منصور اللحم کو جنگ کے بغیر زندگی کا کبھی پتہ ہی نہیں چل سکا۔ فلاحی ادارے ’ہیومینٹی اینڈ انکلوژن‘ کے مطابق طویل عرصے سے جاری غذائی اور بچوں کے دودھ کی کمی کی وجہ سے بچی کی موت جولائی علاقے کے ایک ہسپتال میں ہوئی۔
قبل ازیں رواں ماہ اقوام متحدہ کے ترجمان سٹیفن دوجارک نے خبردار کیا تھا کہ جنگ شروع ہونے کے بعد سے غزہ میں بھوک اور غذائی قلت پورے عروج ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق جولائی میں پانچ سال سے کم عمر کے تقریباً 12 ہزار بچے میں شدید غذائی قلت کے شکار تھے جن میں 2500 سے زیادہ بچے خطرناک درجے والی غذائی قلت کا سامنا کر رہے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ یہ تعداد غالباً اصل صورت حال سے کم بتائی گئی۔
جمعے کو عالمی بھوک پر نظر رکھنے والے ادارے انٹیگریٹڈ فوڈ سکیورٹی فیز کلاسیفیکیشن (آئی پی سی) نے اعلان کیا کہ پانچ لاکھ 14 ہزار افراد، جو غزہ میں فلسطینی آبادی کا تقریباً ایک چوتھائی ہیں، اس وقت قحط کا سامنا کر رہے ہیں۔
وسیع پیمانے پر بین الاقوامی مذمت کے باوجود اسرائیلی فوج بظاہر علاقے کے سب سے بڑے غزہ شہر میں اپنی زمینی کارروائی کے اگلے مرحلے کو آگے بڑھانے کے لیے تیار نظر آ رہی ہے جس سے خدشات پیدا ہو گئے ہیں کہ صحت کا بحران مزید بگڑ جائے گا۔
ثنا نامی بچی کی موت محض اس تکلیف دہ صورت حال کی ایک مثال ہے جو وہاں پیش آ رہی ہے۔
ہیومینٹی اینڈ انکلوژن سے تعلق رکھنے والے بحالی کے ایک ماہر ہيثم ابو حدروس، جو اس نومولود بچی کی دیکھ بھال کرنے والی ٹیم کا حصہ تھے، کہتے ہیں ’ثنا جنگ کے دوران پیدا ہوئیں۔ وہ ایک ننھی بچی تھیں جنہوں نے اس دنیا میں داخل ہوتے ہی اس کی بے رحمی کے سوا کچھ نہیں جانا۔
’ان کی پہلی سانس سے ہی غزہ میں انسانی بحران دن بہ دن بگڑتا جا رہا تھا۔ کھانے، دودھ یا دوا تک رسائی تقریباً ناممکن ہو گئی تھی۔ اپنی زندگی کے پہلے دن سے ہی انہوں نے وہ حالات دیکھے جن کا سامنا کسی بچے کو کبھی نہیں کرنا چاہیے۔‘
بین الاقوامی امدادی تنظیم نے بتایا کہ اسے پہلی بار ثنا کی حالت کا علم اس وقت ہوا جب ایک تھکی ہاری اور مایوس نوجوان ماں اپنی بیٹی کو گود میں لیے ٹوٹے ہوئے ہاتھ کے ساتھ دیر البلح کے علاقے میں واقع الاقہر سکول میں قائم اقوام متحدہ کی پناہ گاہ میں داخل ہوئیں۔
حدروس کہتے ہیں کہ ’وہ جسمانی اور ذہنی طور پر بالکل نڈھال لگ رہی تھی۔ غزہ بھر کے ایک ہسپتال سے دوسرے ہسپتال تک بھاگ بھاگ کر۔ انہوں نے جواب، امید اور کسی ایسے شخص کو تلاش کیا جو انہیں بتا سکے کہ ان کی بیٹی کو کیا ہو گیا ہے؟
’ان کی بچی جو کبھی خوش اور کھیلنے والی تھیں، اچانک تیز بخار کے بعد بدل گئیں۔ رونا بند کر دیا۔ پہلے کی طرح حرکت نہیں کرتی تھیں۔
’نہ لڑھکتی نہ ردعمل کا اظہار کرتیں۔ وہ بس ساکت رہتیں۔ ہلکا سا سر اور ہاتھ پاؤں ہلاتیں جیسے خاموشی میں ڈوبتی جا رہی ہوں۔‘
تنظیم نے بتایا کہ ثنا کی نشوونما نہیں ہو رہی تھی۔ طبی ماہرین کہتے ہیں کہ نومولود بچوں میں تیز بخار سنگین انفیکشن کی علامت ہو سکتا ہے جس کا اگر فوراً علاج نہ کیا جائے تو اس سے دیرپا اعصابی نقصان پہنچ سکتا ہے۔
غزہ میں طبی سہولیات کی کمی کے باعث یہ ایک عام مسئلہ ہے۔ غذائی قلت دماغ اور مدافعتی نظام کی نشوونما کو کمزور کرتی ہے، جس سے اعصابی مسائل کے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔
غالباً ثنا کے جسم میں بخار کے دوران لڑنے کے لیے کوئی طاقت نہیں تھی اور مناسب غذا یا طبی علاج کے بغیر ان کی حالت مزید خراب ہو گئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہیومینٹی اینڈ انکلوژن کا کہنا ہے کہ مارچ میں تھوڑی دیر کے لیے امید پھر جاگی جب ان کی ٹیم نے ثنا کی حرکت بحال کرنے کے لیے فزیوتھراپی شروع کی، ساتھ ہی آکیوپیشنل تھراپی اور نفسیاتی مدد بھی دی۔
تین سیشنز کے بعد بتایا گیا کہ ثنا کروٹ بدل سکتی ہے اور کم سے کم سہولت کے ساتھ بیٹھ سکتی ہے۔
حدروس نے کہا کہ ’اس کی ماں خوشی سے رو پڑیں۔ یہ پہلا موقع تھا کئی ماہ بعد انہوں نے حقیقی امید دیکھی۔‘
لیکن یہ امید زیادہ دیر قائم نہ رہ سکی۔ طبی نگہداشت اور دیر البلح کے شہدا الاقصیٰ ہسپتال میں منتقلی کے باوجود ثنا کی حالت بگڑ گئی۔
تنظیم نے بتایا کہ یہ بچی 17 جولائی بھوک کے باعث جان سے چلی گئی۔
حدروس کے مطابق ’ثنا صرف ایک کیس نہیں۔ وہ کوئی اعداد و شمار نہیں تھی۔ وہ ایک بچی تھی۔ ایک جان جو جنگ کے دوران پیدا ہوئی۔ جس نے خاموش آنکھوں سے دنیا کا سامنا کیا اور بہت جلد رخصت ہو گئی۔
’اس کی کہانی میں صرف غم ہی نہیں بلکہ دنیا سے ایک سوال بھی ہے کہ ہم مزید کتنے بچوں کو مٹنے دیں گے؟ اس سے پہلے کہ غزہ میں بھوک کو ہنگامی صورت حال کے طور پر تسلیم کیا جائے جو حقیقت ہے۔
’یہ المناک نقصان فوری اور مستقل جنگ بندی، انسانی امداد کی بلا رکاوٹ فراہمی اور کمزور گروہوں جیسے معذور افراد اور بچوں کے لیے مسلسل مدد اور اقدامات کی فوری ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔‘
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق جمعرات تک 271 فلسطینی، جن میں 112 بچے شامل ہیں، جنگ شروع ہونے کے بعد سے غذائی قلت سے متعلق وجوہات کے باعث جان سے جا چکے ہیں۔
اسرائیل ان اعداد و شمار کو تسلیم نہیں کرتا۔ اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو کا دعویٰ ہے کہ بھوک کے بارے میں اطلاعات ’جھوٹ‘ ہیں جو حماس پھیلا رہی ہے اور علاقے میں کوئی بھی تکلیف اسی تنظیم کی وجہ سے ہے۔
اسرائیلی وزارت نے قحط کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا کہ ’جنگ کے آغاز سے اب تک ایک لاکھ سے زیادہ امدادی ٹرک غزہ میں داخل ہو چکے ہیں اور حالیہ ہفتوں میں بہت بڑی مقدار میں امداد غزہ پہنچی جس میں بنیادی غذائی اشیا شامل تھیں اور اس کے نتیجے میں خوراک کی قیمتوں میں تیزی سے کمی آئی جو بازاروں میں گر گئیں۔‘
غزہ کے صحت حکام کے مطابق سات اکتوبر 2023 سے اب تک 62 ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کی جان جا چکی ہے۔
حماس کے سات اکتوبر کو کیے گئے حملوں میں تقریباً 1200 افراد مارے گئے اور تقریباً 250 کو قید کر لیا گیا۔
ایسی صورت حال میں کہ جب انسانی بحران ’تباہ کن‘ سطح تک پہنچ رہا ہے، ہیومینٹی اینڈ انکلوژن کا کہنا ہے کہ وہ غزہ میں بھوک کے ’تباہ کن اور ناقابل تلافی‘ اثرات پر خطرے کی گھنٹی بجا رہی ہے، خصوصاً معذور افراد اور بچوں کے معاملے پر۔
’جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں وہ صرف ایک انسان ساختہ بحران نہیں بلکہ ایسا بحران ہے جو تیزی سے ایک ایسی نسل پیدا کر رہا ہے جو زندگی بھر کی معذوریوں کا شکار ہوگی جو براہ راست طویل غذائی قلت کے باعث ہیں۔‘
تنظیم کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر جارج گراہم وضاحت کرتے ہیں کہ ’جب بھوک غزہ پٹی کے ہر فرد کو متاثر کر رہی ہے تو اس کا غیر متناسب اثر بچوں اور معذور افراد پر پڑ رہا ہے۔
’غذائی قلت معذوری کی ایک بڑی وجہ ہے۔ ہمیں اس بات کا خطرہ ہے کہ ایک پوری نسل ایسی پیدا ہو گی جو معذوریوں کا شکار ہو گی کیوں کہ مائیں خود بھوک اور غذائی قلت کا شکار ہیں۔‘
© The Independent