میں نے پچھلے سال اسلام آباد کی ایک مشہور جامعہ میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر اپنی ملازمت کا آغاز کیا۔ اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ بہت سی جامعات سمسٹر میں دو مرتبہ طلبہ سے اساتذہ اور ان کے مضامین کے بارے میں فیڈبیک لیتی ہیں۔
اس فیڈبیک میں طلبہ سے فیکلٹی کے بارے میں چند مخصوص پہلوؤں پر رائے طلب کی جاتی ہے، جیسے استاد کا مضمون پر عبور، کلاس کی تیاری، اسائنمنٹس کی بروقت جانچ، طلبہ کی بات سننا، انہیں وقت دینا، کورس کے شیڈول کی پابندی اور ان کا مجموعی اندازِ تدریس۔
میں نے اپنے طالب علمی کے دوران کبھی کسی پروفیسر یا کورس کے حوالے سے فیڈبیک نہیں دیا۔ میری جامعات میں ایسا نظام ہی موجود نہیں تھا۔
چین میں ایسے فیڈبیک کی کبھی ضرورت ہی پیش نہیں آئی۔ وہاں نہ کبھی ہماری حاضری لگی، نہ کبھی باقاعدہ امتحان ہوا۔ ہم پھر بھی باقاعدگی سے کلاس میں جاتے تھے اور تمام اسائنمنٹس محنت سے کرتے تھے۔
چینی پروفیسر اپنے شعبے کے ماہر تھے۔ بہت سے پروفیسر درس و تدریس میں مشغول ہونے سے قبل انڈسٹری میں سالوں صرف کر چکے تھے۔ ان کا تحقیق میں بھی کافی تجربہ تھا۔ بعض پروفیسرز کی انگریزی کمزور تھی، تاہم اس کے باوجود وہ اپنا مضمون اچھے سے پڑھاتے تھے۔
چینی فطرتاً محنتی، ایماندار اور وقت کے پابند ہیں۔ ہمیں کبھی ان کے ساتھ ایسا کوئی مسئلہ پیش نہیں آیا۔ ہمارے آنے سے پہلے وہ کمرے میں موجود ہوتے تھے۔ اپنا کام ہم سے زیادہ ایمانداری اور شفافیت سے کرتے تھے۔ ہم کچھ پوچھتے تھے تو مکمل تفصیل سے اس کا جواب دیتے تھے۔
انہیں جامعہ کی طرف سے مکمل آزادی حاصل تھی کہ وہ جیسے چاہیں ہماری کارکردگی جانچیں۔ ایک پروفیسر فوٹوگرافی پڑھا رہے تھے۔ انہوں نے سمسٹر کے اختتام پر ہمیں کہا کہ ہم ایک تصویر کھینچیں اور انہیں بطور ٹرم پیپر جمع کروا دیں۔ بس وہی ہمارا پیپر ہو گیا۔
پنجاب یونیورسٹی میں صورتحال اس کے برعکس تھی۔ زیادہ تر مضامین وزیٹنگ فیکلٹی پڑھا رہی تھی۔ ایسی فیکلٹی کی بھرتی اکثر ذاتی تعلقات کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ ایک دفعہ ایک مشہور سینئر تجزیہ نگار کو ایک کورس سونپا گیا تھا۔ انہوں نے پورے سمسٹر میں صرف دو دن لیکچر دیا۔ اس میں بھی وہ بس یہی پوچھتے رہے کہ ’آج کی سب سے اہم خبر کیا ہے؟‘ مجھے اب اس کورس کا نام بھی یاد نہیں، لیکن اتنا ضرور یاد ہے کہ ان دو لیکچرز کی بنیاد پر ہمارے دو امتحان بھی ہوئے تھے۔
ایک پروفیسر ایسے بھی تھے جنہوں نے دو مختلف کورسز میں ایک ہی مواد پڑھایا تھا۔ ایک کورس ڈین کو پڑھانا تھا، لیکن وہ اپنی ذمہ داریوں میں اس قدر مصروف رہتے تھے کہ یا تو کلاس میں آ ہی نہیں پاتے تھے یا آدھا وقت گزرنے کے بعد آتے تھے۔
تاہم، اب جامعات کے طریقہ کار میں قدرے بہتری آئی ہے۔ وہ فیکلٹی کی کارکردگی جانچنے کے لیے کئی طریقوں کا استعمال کرتی ہیں۔ ان میں سے ایک طلبہ سے فیکلٹی کا فیڈبیک لینا ہے۔ یہ جہاں ایک اچھا عمل ہے، وہیں اس کے بارے میں بہت سے خدشات بھی موجود ہیں۔
کئی تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ طلبہ ایسے اساتذہ کو کم نمبر دیتے ہیں جو انہیں زیادہ محنت کرواتے ہیں یا جن کے کورس میں طلبہ کے نمبر کم آتے ہیں۔ کچھ مضامین فطری طور پر مشکل ہوتے ہیں، جیسے تھیوری اور ریسرچ۔ ایسے مضامین پڑھانے والوں کی ریٹنگ بنیادی مضامین پڑھانے والوں کے مقابلے میں کم آتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اداروں میں موجود اندرونی سیاست بھی طلبہ کے فیڈبیک پر اثرانداز ہوتی ہے۔ طلبہ ادارے کے ماحول کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ وہ جس فیکلٹی کی طرف ادارے کا رجحان دیکھتے ہیں، اسے زیادہ فیڈبیک دیتے ہیں۔
جامعات اس صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے مختلف طریقوں پر غور کر رہی ہیں۔ دنیا کی نمایاں جامعات میں پروفیسروں کو اپنے مضامین کے حوالے سے مکمل آزادی حاصل ہوتی ہے۔ وہ اس کی پالیسیاں خود وضع کر سکتے ہیں اور جو طریقہ انہیں مناسب لگے، اس کے مطابق ان کی کارکردگی جانچ سکتے ہیں۔
اگر انہیں لگے کہ کوئی طالب علم کسی امتحان میں اپنی مکمل کارکردگی نہیں دکھا پایا تو وہ اضافی اسائنمنٹس دے کر اسے اپنا گریڈ بہتر کرنے کا موقع دیتے ہیں۔ جب طلبہ کو اساتذہ کی جانب سے کورس کے حوالے سے مکمل آزادی کا احساس ہوتا ہے تو وہ محنت سے پڑھتے ہیں اور نمبر کم آنے پر فیڈبیک کم نہیں دیتے بلکہ پوچھتے ہیں کہ پروفیسر کس طرح انہیں گریڈ بہتر کرنے میں مدد دے سکتے ہیں۔
ہماری جامعات کو بھی پروفیسرز کو کام کے حوالے سے مکمل آزادی دینی چاہیے اور ان کی کارکردگی کو جانچنے کے مؤثر طریقے متعارف کروانے چاہییں۔ کسی استاد کے بارے میں شکایت موصول ہو تو اس کی جانچ کی جائے کہ آیا وہ درست بھی ہے یا نہیں۔ اگر شکایت درست ہو تو فیکلٹی اور طلبہ کے ساتھ مل کر اسے حل کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے، اور اگر وہ شکایت جائز نہ ہو تو طلبہ کے اس منفی رویے کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے۔
ادارے ضابطوں سے بنتے ہیں۔ ان کی خلاف ورزی یا ان میں نرمی اداروں کو لمبے عرصے میں بہتر بنانے کے بجائے صرف تباہ و برباد کرتی ہے۔
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔