ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) نے حال ہی میں ایک اعلان میں پاکستان کی تمام جامعات میں انڈرگریجویٹ ڈگری مکمل کرنے کے لیے انٹرن شپ اور متعلقہ شعبوں سے تسلیم شدہ سرٹیفیکیشن لازمی قرار دے دی ہیں۔ ایچ ای سی کے اس قدم کا مقصد طالب علموں کی روزگار حاصل کرنے کی صلاحیت کو بڑھانا ہے۔
اس پالیسی کے مطابق ہر انڈرگریجویٹ پروگرام میں کم از کم تین کریڈٹ آورز کی سپروائزڈ انٹرن شپ لازمی ہے۔ طلبہ کے لیے پہلے بھی انٹرن شپ کرنا لازمی ہوتا تھا لیکن انہیں اس کے عوض کریڈٹ آور نہیں ملتے تھے۔ انہیں وہ انٹرن شپ اپنی موسمِ گرما کی تعطیلات میں یا سمسٹر کے ساتھ ساتھ مکمل کرنا ہوتی تھی۔
ایچ ای سی کے اس اعلان کے بعد طلبہ کو اس انٹرن شپ کے بدلے میں کریڈٹ ملیں گے۔ اگر طلبہ کسی معتبر قومی اور بین الاقوامی ادارے سے اپنے کورس سے متعلقہ کسی مہارت کا سرٹیفکیٹ حاصل کرتے ہیں تو یونیورسٹی انہیں اس کے عوض بھی کریڈٹ دے سکتی ہے۔
ایچ ای سی کی اس پالیسی کا مقصد علمی اور عملی دنیا کے مابین موجود فاصلے کم کرنا ہے۔ یہ بلاشبہ ایک اچھا قدم ہے۔ پاکستان میں علمی اور عملی دنیا کے درمیان بہت بڑا خلا موجود ہے خصوصاً سماجی علوم میں۔ اس کی ایک بڑی وجہ جامعات کی اپنی ترجیحات ہیں۔
اکثر جامعات تحقیق پر زیادہ توجہ دیتی ہیں کیونکہ اس سے ان کی عالمی درجہ بندی بہتر ہوتی ہے۔ وہ انڈسٹری کے ساتھ کام کرنے والی فیکلٹی کو زیادہ اہمیت نہیں دیتی اور ان کی یہ ترجیحات فیکلٹی کے آپسی تعلقات میں واضح نظر آتی ہے۔
اس بنیاد پر جامعات میں کام کرنے والی فیکلٹی کو دو گروہ میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک وہ جو تعلیم مکمل کر کے سیدھی یونیورسٹی میں پڑھانے آ جاتی ہے۔ دوسری وہ جو اپنے شعبے میں کئی سال کام کرنے کے بعد مزید اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے اکیڈیمیا کا حصہ بنتی ہے۔ پاکستانی جامعات میں یہ دونوں گروہ اکثر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔
صرف تدریس اور تحقیق کرنے والی فیکلٹی انڈسٹری سے آنے والوں کے تجربے کو اہم نہیں سمجھتی جبکہ انڈسٹری کا تجربہ رکھنے والے اساتذہ ان کے کام کو بے معنی قرار دیتے ہیں۔
ان کی آپس کی یہ چپقلش طلبہ کے علاوہ ادارے پر بھی ایک منفی اثر مرتب کرتی ہے۔ تحقیق کرنے والی فیکلٹی طلبہ کو انٹرن شپ کی اہمیت نہیں بتاتی بلکہ اکثر انہیں اپنے کسی ریفرنس سے جعلی سرٹیفکیٹ بنوانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ طلبہ انٹرن شپ کو محض ڈگری لینے کا ایک اہم جزو سمجھتے ہیں۔ وہ اپنے اس رویے کی وجہ سے انٹرن شپ سے حاصل ہونے والا فائدہ نہیں اٹھا پاتے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایچ ای سی نے پالیسی تو بنا دی ہے۔ اب جامعات کو چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی اس پر عمل کرنا ہو گا۔ لیکن اس پالیسی سے فائدہ اٹھانے کے لیے سب سے پہلے جامعات کو طے کرنا چاہیے کہ ان کی ترجیحات کیا ہیں۔ کیا وہ صرف تحقیق میں نام بنانا چاہتی ہیں؟ کیا وہ انڈسٹری کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتی ہیں؟ یا ان دونوں میں ایک توازن قائم کرنا چاہتی ہیں۔ انہیں پھر اس کے مطابق ہی کام کرنا چاہیے۔
زیادہ تر جامعات اپنی ترجیحات کا تعین ہی نہیں کرتیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ فیکلٹی آپس کی کھینچا تانی میں الجھی رہتی ہے۔ اساتذہ اپنی ذاتی پسند ناپسند طلبہ پر مسلط کرتے ہیں۔ طلبہ ان کے دباؤ میں اپنے کیریئر کے بارے میں آزادانہ فیصلے نہیں کر پاتے۔
اس صورت حال سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ جامعات ایک واضح اور تحریری پالیسی بنائیں اور اسے فیکلٹی اور طلبہ دونوں تک پہنچائیں تاکہ سب اس کے مطابق چل سکیں۔
جامعات کو اس کے ساتھ ایک ایسا ڈھانچا بھی بنانا چاہیے جو دونوں گروہوں کو ایک دوسرے کے کام اور تجربے کی قدر سکھائے اور انہیں ایک دوسرے کے ساتھ کام کرنے کی ترغیب دے۔ اگر جامعہ اپنی پالیسیوں سے ایک گروہ کو دوسرے پر برتری دیتی رہے گی تو یہ برتری دوسرے گروہ کو کم تر محسوس کروائے گی اور اس کا برا اثر مجموعی تعلیمی ماحول پر پڑے گا۔
کسی بھی پالیسی کی کامیابی اس کا اطلاق کرنے والوں کے رویے پر منحصر ہوتی ہے۔ ایچ ای سی نے پالیسی بنا دی ہے۔ اب یہ پالیسی کامیاب ہوگی یا ناکام، اس کا فیصلہ جامعات اور ان میں کام کرنے والے لوگ کریں گے۔
اگر جامعات اس پالیسی کو کامیاب بنانے کے لیے اپنی پالیسیوں میں تبدیلیاں لاتی ہیں تو ان کے طلبہ محض ایک ڈگری کے ساتھ فارغ التحصیل نہیں ہوں گے بلکہ ان کے پاس اپنے متعلقہ شعبے کا ٹھوس تجربہ بھی ہو گا، لیکن اگر جامعات اپنی پالیسیوں کے ذریعے فیکلٹی کو تقسیم ہی رکھتی ہیں یہ انٹرن شپ محض خانہ پُری بن کر رہ جائے گی اور کسی کو بھی اس سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔
نوٹ: یہ تحریر بلاگر کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈںٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔