فلسطینی تنظیم حماس کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غزہ کے لیے پیش کیے گئے امن منصوبے کے تحت قیدیوں کی رہائی اور جنگ کے خاتمے پر فوری بات چیت پر مثبت ردعمل کے بعد امریکی صدر نے اسرائیل کو غزہ پر فوری طور پر بمباری روکنے کا کہا ہے۔
وائٹ ہاؤس نے 29 ستمبر کو غزہ میں تقریباً دو سال سے جاری جنگ کے خاتمے، اسرائیلی قیدیوں کی رہائی اور فلسطینی زمین کے مستقبل کا خاکہ پیش کرنے کے لیے 20 نکاتی منصوبہ جاری کیا تھا اور اس پر حماس کے جواب کا انتظار تھا۔
جمعے کو صدر ٹرمپ نے حماس کو امن منصوبے سے اتفاق کرنے کے لیے اتوار تک کا وقت دیا تھا اور بصورت دیگر ’خمیازہ بھگتنے‘ کی دھمکی بھی دی تھی۔
جس کے بعد حماس نے جمعے کو کہا کہ وہ اپنے پاس موجود اسرائیلی قیدیوں کی رہائی اور غزہ کی جنگ کے خاتمے پر فوری بات چیت شروع کرنے کے لیے تیار ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حماس کے سینیئر عہدیدار موسیٰ ابو مرزوق نے الجزیرہ نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ تحریک کی سب سے بڑی ترجیح غزہ میں جنگ اور قتلِ عام کو روکنا ہے اور اسی نقطۂ نظر سے حماس نے ٹرمپ کے منصوبے کو مثبت انداز میں لیا۔
انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ قومی اتفاقِ رائے کے تحت غزہ کی انتظامیہ کو آزاد ٹیکنوکریٹس ماہرین کے حوالے کیا جائے گا، جو فلسطینی اتھارٹی کی نگرانی میں کام کریں گے۔ تاہم انہوں نے نشاندہی کی کہ موجودہ حالات میں 72 گھنٹوں کے اندر قیدیوں اور لاشوں کی حوالگی حقیقت پسندانہ نہیں ہے۔
موسیٰ ابو مرزوق نے زور دیا کہ فلسطینی عوام کا مستقبل ایک قومی مسئلہ ہے، جس کا فیصلہ صرف حماس اکیلے نہیں کر سکتی۔
انہوں نے مزید کہا کہ حماس نے ایک ایسے علاقائی و بین الاقوامی ڈھانچے سے اتفاق کیا ہے جو مصر کی حمایت یافتہ ہے اور امن و مستقبل کے معاملات کو دیکھتا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے امریکہ پر زور دیا کہ وہ فلسطینی امنگوں کے ساتھ مثبت انداز میں شامل ہو۔
ابو مرزوق کے مطابق حماس نے ٹرمپ پلان میں ان نکات پر تعمیری ردعمل دیا ہے جو براہِ راست حماس سے متعلق ہیں اور یہ بھی یقین دہانی کروائی کہ وہ تمام متعلقہ معاملات پر بات چیت کے لیے تیار ہیں، جن میں اسلحے کا مسئلہ بھی شامل ہے۔
ٹرمپ کے امن منصوبے میں، جس کی حمایت کئی عرب اور مسلم ملکوں کے علاوہ اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو نے بھی کی ہے، تقریباً دو برس سے جاری لڑائی روکنے، 72 گھنٹے کے اندر قیدیوں کی رہائی، غزہ سے اسرائیلی افواج کے بتدریج انخلا اور حماس کو غیر مسلح کرنے پر زور دیا گیا ہے۔
حماس کو غیر مسلح کیے جانے سے متعلق نکتے کا ذکر گروہ نے اپنے جواب میں نہیں کیا۔
امریکی صدر نے جمعے اور ہفتے کی درمیانی شب ٹروتھ سوشل پر ایک پوسٹ میں حماس کے بیان کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ ان کے خیال میں ’وہ پائیدار امن کے لیے تیار ہے۔‘ ساتھ ہی انہوں نے اسرائیل کو غزہ پر حملے فوری روکنے کا بھی کہا تاکہ قیدیوں کا تبادلہ ممکن بنایا جا سکے۔
ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ یہ منصوبہ صرف غزہ میں امن کے لیے نہیں بلکہ یہ مشرق وسطیٰ میں امن کے لیے ہے۔
امریکی صدر کی پوسٹ پر ردعمل دیتے ہوئے حماس کے ترجمان طاہر النونو نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’صدر ٹرمپ کے غزہ کی پٹی میں اسرائیلی بمباری کے فوری خاتمے سے متعلق بیانات حوصلہ افزا ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’حماس قیدیوں کے تبادلے، جنگ کے خاتمے اور غزہ کی پٹی سے (اسرائیلی) فوج کے انخلا کو یقینی بنانے کے لیے فوری طور پر مذاکرات شروع کرنے کے لیے تیار ہے۔‘
دوسری جانب اسرائیلی صدر بن یامین نتن یاہو کے دفتر کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ ’حماس کے جواب کے پیش نظر، اسرائیل تمام یرغمالیوں کی رہائی کے لیے ٹرمپ پلان کے پہلے مرحلے پر فوری عمل درآمد کی تیاری کر رہا ہے۔‘
اے ایف پی کے مطابق بیان میں مزید کہا گیا: ’ہم صدر (ٹرمپ) اور ان کی ٹیم کے ساتھ مکمل تعاون میں کام جاری رکھیں گے تاکہ جنگ کو ان اصولوں کے مطابق ختم کیا جا سکے جو اسرائیل نے طے کیے ہیں اور جو صدر ٹرمپ کے وژن سے ہم آہنگ ہیں۔‘
اہم ثالث قطر اور مصر دونوں نے حماس کے بیانات کا یہ امید ظاہر کرتے ہوئے خیر مقدم کیا کہ اس سے تنازع کے خاتمے میں مدد ملے گی۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریش کے ترجمان نے کہا کہ وہ ’تمام فریقوں سے اپیل کرتے ہیں کہ اس موقعے سے فائدہ اٹھائیں۔‘
فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون، جرمنی کے فریڈرش مرٹز اور برطانیہ کے کیئر سٹارمر نے اسے ’امن کی جانب ایک بڑا قدم‘ قرار دیا۔