خیبر پختونخوا کی سرکاری فوڈ اتھارٹی نے اپنی ایک تازہ ٹیسٹنگ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ صوبے میں استعمال ہونے والے 40 فیصد سے زائد بوتل میں بند پانی غیر معیاری اور مضر صحت پایا گیا ہے۔
اتھارٹی کے پرووینشل فوڈ ٹیسٹنگ لیبارٹری اینڈ سینٹر فار ریسرچ نے 61 مختلف مقامی اور بین الاقوامی کمپنیوں کے ڈیڑھ لیٹر، 300 ملی لیٹر، 19 لیٹر اور 500 لیٹر والی پانی کی بوتلوں کے 156 نمونے ٹیسٹ کیے۔
پانی کی یہ نمونے 23 اگست سے 19 ستمبر کے درمیان ہونے والی مہم کے دوران لیے گئے تھے اور بوتل والے پانی کے ساتھ ساتھ واٹر سورسز کے نمونے بھی ٹیسٹ کیے گئے۔
نمونوں میں 19 لیٹر کی بوتلوں کے نمونوں میں 50 فیصد، ڈیڑھ لیٹر میں 42 فیصد، 500 ملی لیٹر نمونوں میں 35 فیصد اور 300 ملی لیٹر نمونوں میں 25 فیصد نمونے غیر معیاری اور مضر صحت پائے گئے۔
ان نمونوں میں مجموعی طور پر رپورٹ کے مطابق 40 فیصد نمونے (62 نمونے) مضر صحت اور اس میں مختلف مضر صحت کیمیکل کے استعمال کا انکشاف ہوا ہے۔
خیبر پختونخوا سیفٹی اینڈ حلال فوڈ اتھارٹی کے سربراہ واصف سعید نے رپورٹ کے حوالے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 40 فیصد نمونوں میں کولی فام، فیکل کولی فام، ای کولائی، او پیسوڈو موناس اریجنو جراثیم پائے گئے جبکہ دو نموں میں مضر صحت کیمیکل بھی پائے گئے۔‘
رپورٹ کے مطابق نمونوں میں کولی فارم جراثیم کی کل مقدار 2449 سے زیادہ پائی گئے ہے جسے ایک سے کم ہونا چاہیے۔
اسی طرح فیکل کولی فارم کی مقدار نمونوں میں 1732، ای کولالی کی مقدار 1180 جبکہ سیڈومانوس ایروگونیسیا کی مقدار 2070 سے زیادہ پائی گئی جس کی مقدار ایک سے کم ہونی چاہیے۔
واصف سعید کے مطابق ’صوبے میں روزانہ چار لاکھ 19 ہزار لیٹرز سے زائد بوتل والا پانی تیار کیا جاتا ہے جس میں ایک لاکھ 17 ہزار لیٹر سے زائد غیر معیاری پایا گیا۔‘
خیبر پختونخوا کے وزیر صحت ظاہر شاہ طورو نے رپورٹ کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ غیر معیاری پانی کی بوتل تیار کرنے والے کارخانوں پر بھاری جرمانے عائد کیے گئے ہیں۔
ظاہر شاہ طورو کے مطابق ’ان کارخانوں کی مصنوعات کو مارکیٹ سے واپس اٹھانے کی سخت ہدایات دی گئی ہیں اور پراسیسنگ نظام کی درستگی تک ان کارخانوں پر پابندی عائد رہے گی۔‘
پائے گئے جراثیم کتنے خطرناک ہیں؟
فوڈ اتھارٹی کی مہم کے دوران نمونوں میں پائے گئے جراثیم کے حوالے سے سعودی عرب کے جدہ ہسپتال میں خدمات انجام دینے والے ڈاکٹر شبیر احمد کہتے ہیں کہ رپورٹ میں ایک کولائی نامی جراثیم عام طور پر فضلے سے آلودہ پانی میں پایا جاتا ہے۔
ڈاکٹر شبیر احمد نے نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ای کولالی کی پانی میں موجودگی کا مطلب یہ ہے کہ پانی کا ذریعہ آلودہ ہے جس سے مختلف بیماریاں لگ سکتی ہے۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’ای کولائی اسہال، پیٹ درد اور دیگر بیماریوں کا موجب بن سکتا ہے۔‘
امریکی سرکاری ادارے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول کے مطابق ای کولائی جراثیم عام طور پر خطرناک نہیں ہوتا لیکن ان کی پانی یا خوراک میں موجود بعض قسمیں انسانی صحت کے لیے خطرناک ہیں۔
اسی سینٹر کے مطابق ای کولائی کی ایک قسم پانچ سال کی عمر کے بچوں اور 65 سال سے زائد بزرگوں کے لیے زیادہ خطرناک ہوتا ہے جبکہ اس کی ایک قسم سے گردے فیل ہونے، مستقبل صحت کے مسائل اور حتٰی کے اس سے موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔
پانی کے نمونوں میں ایک اور جراثیم فیکل کولی فارم بھی پایا گیا ہے جو انسان یا جانوروں کی آنتوں میں موجود ہوتا ہے اور اس کا بھی اس پانی میں موجودگی کا مطلب یہ ہے کہ پانی آلودہ ہے اور اس جراثیم سے انسانی صحت پر برے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
پانی کے نمونوں میں سیڈو موناس کی موجودگی بھی امریکہ کے کلیولینڈ کلینک کے مطابق کمزور قوت مدافعیت رکھنے والے انسانوں کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔
کلیولینڈ کلینک کے مطابق یہ جراثیم جو زیادہ پانی یا ماحول میں پایا جاتا ہے، مضبوط قوت مدافعت رکھنے والے افراد کے لیے نقصان دہ ثابت ہونا بہت کم ہے۔
تاہم کلیولینڈ کلینک کے مطابق کمزور قوت مدافعت رکھنے والے افراد یا ایسے افراد جن کو گردوں، جگر، کینسر، جوڑوں کا درد، شوگر اور دوران حمل یہ جراثیم نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔