پاکستان مضرصحت چکنائی استعمال کرنے والے سرفہرست ممالک میں شامل

عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان کا شمار ان نو ممالک میں ہوتا ہے جہاں ٹرانس فیٹ کی وجہ سے دل کی بیماری کے باعث اموات کی شرح سب سے زیادہ ہے۔

کھانے کی اشیا بنانے والے ٹرانس فیٹ کا استعمال اس لیے کرتے ہیں کہ ان کی ایکسپائری مدت زیادہ ہوتی ہے اور یہ سستے ہوتے ہیں (پکسابے)

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کا شمار ان نو ممالک میں ہوتا ہے جہاں ٹرانس فیٹ (مضر صحت چکنائی) کی وجہ سے دل کی بیماری کے باعث اموات کی شرح سب سے زیادہ ہے اور اس کے تدارک کے لیے بہترین پالیسیوں پر عمل نہیں ہو رہا۔

فرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ڈبلیو ایچ او نے کہا کہ جن 16 ممالک میں ٹرانس فیٹ کی وجہ سے دل کی بیماری کے باعث اموات کی شرح سب سے زیادہ ہے، ان میں سے نو ایسے ہیں جہاں بہترین پالیسیوں پر عمل نہیں ہو رہا۔

ان ممالک میں آسٹریلیا، آذربائیجان، بھوٹان، ایکواڈور، مصر، ایران، نیپال، پاکستان اور جنوبی کوریا شامل ہیں۔

ڈبلیو ایچ او کے نیوٹریشن اینڈ فوڈ سیفٹی ڈائریکٹر فرانسسکو برانکا نے ان ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ فوری اقدامات کریں۔

فی الحال 60 ممالک میں ٹرانس فیٹ کے خاتمے کی پالیسیاں موجود ہیں، جن میں 3.4 ارب افراد یا دنیا کی آبادی کا 43 فیصد آجاتا ہے۔

ان ممالک میں سے 43 بہترین معیارات پر عمل کر رہے ہیں، جو زیادہ تر یورپ اور امریکہ میں ہیں، تاہم اس طرح کے معیارات کو ابھی تک کسی بھی کم آمدنی والے ممالک کی طرف سے اپنایا نہیں گیا۔

برانکا نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’دنیا کے کچھ ممالک ایسے ہیں، جو اس بات پر یقین نہیں کرتے کہ مسئلہ موجود ہے۔‘

ڈبلیو ایچ او نے کہا ہے کہ پانچ ارب افراد کو ٹرانس فیٹ (چکنائی کی ایک قسم) کی وجہ سے دل کی بیماریوں کے انتہائی خطرات لاحق ہیں۔

عالمی ادارہ صحت نے 2018 میں ایک اپیل جاری کی تھی کہ 2023 تک دنیا بھر میں غذائی اجناس میں سے صنعتی طور پر تیار کردہ فیٹی ایسڈز کو ختم کیا جائے کیونکہ اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ اس کی وجہ سے ہر سال پانچ لاکھ قبل از وقت اموات ہوتی ہیں۔

اقوام متحدہ کے ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ اگرچہ 2.8 ارب افراد کی مجموعی آبادی والے 43 ممالک نے اب تک بہترین پالیسیوں پر عمل درآمد کیا ہے، لیکن کرہ ارض پر دیگر پانچ ارب سے زائد افراد غیر محفوظ ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مصر، آسٹریلیا اور جنوبی کوریا ان ممالک میں شامل ہیں جنہوں نے ایسی پالیسیاں نافذ نہیں کی اور وہاں خاص طور پر ٹرانس فیٹ سے دل کی بیماریاں لگنے کی شرح زیادہ ہے۔

دل کے گرد شریانوں کو بند کرنے والا یہ تیل اکثر پیک شدہ کھانے، پکے ہوئے سامان، کھانا پکانے کے تیل میں استعمال ہوتا ہے اور مارجرین کی طرح پھیلتا ہے۔

ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ایڈہانوم گیبریسس نے سالانہ پیشرفت رپورٹ کے اجرا کے موقع پر کہا کہ ’ٹرانس فیٹ ایک زہریلا جان لیوا کیمیکل ہے اور اس کی خوراک میں کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’اس مادے میں صحت کے لیے بہت بڑے خطرات ہیں، جس سے صحت کے سسٹم پر بہت زیادہ لاگت آتی ہے۔‘

فوری ایکشن کا مطالبہ

کھانے کی اشیا بنانے والے ٹرانس فیٹ کا استعمال اس لیے کرتے ہیں کہ ان کی ایکسپائری مدت زیادہ ہوتی ہے اور یہ سستے ہوتے ہیں۔

ٹرانس فیٹ ختم کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ خوراک میں مجموعی چربی کے فی100 گرام میں صنعتی طور پر تیار کردہ ٹرانس فیٹ کا دو گرام ہو یا پھر جزوی طور پر ہائیڈروجنائزڈ تیل کی پیداوار یا استعمال پر پابندی لگادی جائے، جو ٹرانس فیٹ کا ایک بڑا ذریعہ ہیں۔

’کوئی عذر نہیں‘

غیر منافع بخش تنظیم ریزولیوٹ ٹو سیو لائفز بھی یہ رپورٹ تیار کرنے کے لیے ڈبلیو ایچ او کے ساتھ شریک تھی۔

امریکی سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کے سابق ڈائریکٹر ٹام فریڈن کا کہنا ہے کہ ’مصنوعی زہریلے کیمیکل سے اپنے لوگوں کو بچانے کے لیے کوئی ایکشن نہ لینے کا کسی ملک کے پاس کوئی بہانہ نہیں ہے۔

’صرف آپ کے دل کو فرق معلوم ہوگا۔ آپ قیمت، ذائقہ یا بہترین کھانا تبدیل کیے بغیر مصنوعی ٹرانس فیٹ کو ختم کرسکتے ہیں۔‘

دل کی بیماریاں دنیا بھر میں اموات کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 2019 میں ایک کروڑ 79 لاکھ افراد سی وی ڈی سے ہلاک ہوئے، جن میں سے 85 فیصد کی وجوہات دل کا دورہ اور فالج تھی۔

اس تعداد کو کم کرنے کا ایک آسان طریقہ، ٹرانس فیٹس کو ختم کرنا سمجھا جاتا ہے۔

ٹام فریڈن نے کہا کہ عالمی سطح پر اس کا خاتمہ ممکن تھا، نائیجیریا اور میکسیکو جیسے بڑے ممالک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’وہ اسے ختم کرنے کے قریب ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’ہم پرامید ہیں کہ دنیا ٹرانس فیٹ کو قصہ پارینہ بنا سکتی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت