ناشتہ نہ کرنے والوں کا امراض قلب سے مرنے کا زیادہ امکان: تحقیق

ایک حالیہ تحقیق کے مطابق سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ناشتہ چھوڑنے سے دل کی بیماری کے نتیجے میں موت کا زیادہ خطرہ لاحق ہوتا ہے۔

اس تحقیق میں ناشتہ نہ کرنے کے نتیجے میں بڑی عمر کے لوگوں کے لیے موت کے خطرے پر مزید روشنی ڈالی گئی ہے (پکسا بے)

ایک حالیہ تحقیق کے مطابق ناشتہ نہ کرنا دل کی بیماری کے نتیجے میں موت کے زیادہ خطرے کا سبب بن جاتا ہے۔

تحقیق میں ناشتہ نہ کرنے کے نتیجے میں بڑی عمر کے لوگوں کے لیے موت کے خطرے پر مزید روشنی ڈالی گئی ہے۔

حال ہی میں جرنل آف اکیڈمی آف نیوٹریشن اینڈ ڈائٹیٹکس میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں 40 سال اور اس سے زیادہ عمر کے امریکی بالغوں میں کھانے میں تواتر، کھانا نہ کھانے اور کھانے کے درمیان وقفوں، دیگر تمام وجوہات اور دل کی بیماری (سی وی ڈی) کے نتیجے میں موت کے درمیان تعلق کا جائزہ لیا گیا۔

سائنس دانوں، جن میں امریکہ کی یونیورسٹی آف ٹینیسی سے تعلق رکھنے والے محققین بھی شامل ہیں، کے علم میں آیا کہ روزانہ صرف ایک بار کھانا کھانے سے امریکہ کے بالغ افراد میں موت کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ناشتہ چھوڑنے سے دل کی بیماری کے نتیجے میں موت کا زیادہ خطرہ لاحق ہوتا ہے جبکہ دوپہر کا کھانا یا رات کا کھانا چھوڑنا ہر وجہ سے ہونے والی اموات سے جڑا ہوا ہے۔

محققین کے مطابق حتیٰ کہ ان لوگوں میں بھی، جنہوں نے تحقیق کے دوران دن میں تین وقت کھانا کھایا اور دو کھانوں کے درمیان ساڑھے چار گھنٹے سے کم یا اس کے مساوی وقفہ کیا، ان کا یہ عمل بھی تمام وجوہات کی بنا پر موت کے زیادہ خطرے سے جڑا ہوا ہے۔

تحقیق کے سرکردہ مصنف یانگبو سن نے وضاحت کی: ’ہماری تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ روزانہ صرف ایک وقت کھانا کھانے والے افراد کی موت کا امکان ان لوگوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے جو روزانہ زیادہ مرتبہ کھانا کھاتے ہیں۔ وہ لوگ جو ناشتہ نہیں کرتے ان کے جان لیوا امراض قلب میں مبتلا ہونے کا امکان زیادہ ہے جب کہ جو لوگ دوپہر یا رات کا کھانا چھوڑ دیتے ہیں ان میں دوسری تمام وجوہات کے نتیجے میں موت کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

ڈاکٹر سن کے بقول: ’ایسے وقت میں جب وقفے وقفے سے بھوکا رہنے کو عام طور پر وزن میں کمی، میٹابولک صحت اور بیماریوں سے بچاؤ کے حل کے طور پر لیا جاتا ہے، ہمارا مطالعہ امریکی بالغوں کے ایک بڑے طبقے کے لیے اہم ہے جو روزانہ تین وقت سے کم کھانا کھاتے ہیں۔‘

تحقیق کے دوران سائنس دانوں نے 40 سال اور اس سے زیادہ عمر کے 24 ہزار سے زیادہ امریکی بالغوں کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا۔ ان افراد نے 1999 اور 2014 کے دوران نیشنل ہیلتھ اینڈ نیوٹریشن ایگزامینیشن سروے (این ایچ اے این ای ایس) میں حصہ لیا۔

یہ سروے ہر دو سال بعد شرکا کی صحت سے متعلق مختلف اعدادوشمار جمع کرتا ہے، جس میں غذائیت، عمومی صحت، بیماری اور صحت کے رویے شامل ہیں۔

محققین نے اموات کی شرح اوراس گروپ میں ہونے والی 4175 اموات کی وجہ کا پتہ لگایا۔ انہیں روزانہ تین بار سے کم کھانے والوں میں متعدد مشترکہ خصوصیات کا پتہ چلا، یعنی جواب دینے والوں میں سے تقریباً 40 فیصد افراد۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ ایسے افراد نوجوان مرد، لاطینی امریکہ سے باہر کے سیاہ فام، کم تعلیم یافتہ، کم خاندانی آمدنی والے، سگریٹ اور زیادہ شراب پینے والے، خوراک کے معاملے میں عدم تحفظ کا شکار، غذائیت سے بھرپور خوراک کم کھانے والے، سنیکس کا زیادہ استعمال کرنے والے اور مجموعی طور پر کم توانائی حاصل والے ہوں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تحقیق کے ایک اور مصنف وائی باؤ نے کہا کہ ’ہمارے نتائج غذائی اور طرز زندگی کے عناصر (سگریٹ نوشی، الکوحل کے استعمال، جسمانی سرگرمی کی حد، توانائی کی مقدار اور خوراک کا معیار) اور خوراک کے عدم تحفظ کو اہمیت دینے کے بعد بھی اہم ہیں۔‘

اس صورت میں کہ جب نتائج مشاہدے پر مبنی ہیں اور عوامل کے درمیان کسی وجہ کی بنیاد پر تعلق کو ظاہر نہیں کرتے، سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ نتائج کا ’میٹابولک مطلب‘ بہر حال موجود ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ کھانا چھوڑنا عام طور پر ایک ہی وقت میں ضروری توانائی کی بڑی مقدار کے استعمال کا سبب بنتا ہے۔

سائنس دانوں نے وضاحت کی ہے کہ اس سے جسم میں نشاستے کو جزو بدن بنانے کا بوجھ بڑھ جاتا ہے اور بعد ازاں اس کا نتیجہ میٹابولزم کی خرابی کی صورت میں نکلتا ہے۔

سائنس دانوں کے مطابق یہ نتائج کھانے کے درمیان کم وقفے اور موت کے درمیان تعلق کی بھی وضاحت کر سکتے ہیں کیوں کہ کھانے کے درمیان کم وقت مقررہ مدت میں توانائی کے زیادہ بوجھ کا باعث بن سکتا ہے۔

ڈاکٹر باؤ کہتے ہیں کہ ’ہماری تحقیق کھانے کے وقت اور روزانہ کھانا کھانے کے درمیانی عرصے کے تناظر میں کھانے کی عادات اور موت کے درمیان تعلق کے بارے میں انتہائی ضروری ثبوت فراہم کرتی ہے۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت