صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 20 نکات غزہ میں دیر پا امن کے قیام کے لیے مدد گار ہوں گے یا نہیں؟ فی الحال ان نکات پر فریقین میں ہم آہنگی نہیں ہے۔ ان میں اس وقت تک ترامیم سامنے آتی رہیں گی، جب تک یہ تمام فریقین کے لیے قابلِ قبول نہ ہو جائیں۔
سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملوں کو دو سال ہو جائیں گے۔ ان دو سالوں میں بہت کچھ بدلا ہے اور مسلسل بدل رہا ہے۔
صدر ٹرمپ نے اپنے گذشتہ دورِ حکومت میں 15 ستمبر 2020 کو مشرقِ وسطیٰ میں دیر پا امن کے لیے ’معاہدۂ ابراہیمی‘ کا اعلان کیا تھا، جس میں اس وقت متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش اور سوڈان نے شمولیت اختیار کی تھی اور خیال تھا کہ اگلے مرحلے میں مشرق وسطیٰ اور اسلامی دنیا کے دیگر ممالک بھی اس کا حصہ بن جائیں گے۔
سعودی عرب، قطر، ترکی، مصر، پاکستان اور انڈونیشیا پر دباؤ رہا کہ وہ اس معاہدے کا حصہ بن جائیں، تاہم صدر ٹرمپ 2021 میں دوسری بار کے لیے صدر کا انتخاب ہار گئے اور اس کے ساتھ ہی ابراہیمی معاہدہ بھی پس منظر میں چلا گیا۔
تاہم نومبر 2024 میں جب وہ ایک بار پھر صدر بنے تو سوال اٹھا کہ ان کے گذشتہ منصوبے ابراہیمی معاہدے کا کیا بنے گا؟ کیونکہ اس بار انہیں مختلف صورت حال کا سامنا تھا۔ غزہ ملبے کا ڈھیر بن چکا تھا، جہاں اب تک 66 ہزار سے زائد لوگ اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں لقمۂ اجل بن چکے ہیں۔
یہ جنگ لبنان، شام، یمن، ایران اور قطر تک پھیلی اور قریب تھا کہ اس کے شعلے بھڑکتے، ٹرمپ کی سفارت کاری پھر حرکت میں آئی۔ اب وہ ایک بار پھر ابراہیمی معاہدے کی بات کر رہے ہیں۔
گذشتہ دنوں جب انہوں نے نتن یاہو کے ساتھ غزہ کے لیے اپنا 20 نکاتی منصوبہ پیش کیا تو انہوں نے ایران کو بھی ابراہیمی معاہدے میں شمولیت کی پیشکش کر دی۔ پاکستان کے نائب وزیراعظم اسحاق ڈار تین روز پہلے ہی یہ واضح کر چکے ہیں کہ پاکستان ابراہیمی معاہدے کا حصہ بننے نہیں جا رہا اور نہ ہی اسرائیل کو تسلیم کر رہے ہیں۔
ابراہیمی معاہدے کا پس منظر کیا ہے؟ اس کی جزیات کیا ہیں؟ اس معاہدے کے ذریعے امریکہ کیا حاصل کرنا چاہتا ہے؟ یہ جاننا نہایت ضروری ہے۔
ابراہیمی معاہدہ کیا ہے؟
سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ویب سائٹ پر ابراہیمی معاہدہ کی جزیات بیان کی گئی ہیں، جن کے مطابق: ’ہم دستخط کنندگان، مشرقِ وسطیٰ اور دنیا بھر میں امن کے قیام اور اس کے استحکام کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں، جو باہمی افہام و تفہیم، بقائے باہمی، انسانی وقار، آزادی، بشمول مذہبی آزادی کے احترام پر مبنی ہو۔ ہم بین المذاہب اور بین الثقافتی مکالمے کو فروغ دینے کی کوششوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں تاکہ تین ابراہیمی مذاہب اور تمام انسانیت کے درمیان امن کی ثقافت کو فروغ دیا جا سکے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ہم سمجھتے ہیں کہ چیلنجز سے نمٹنے کا بہترین طریقہ باہمی تعاون اور مکالمہ ہے۔ ریاستوں کے درمیان دوستانہ تعلقات کا فروغ مشرقِ وسطیٰ اور دنیا بھر میں پائیدار امن کے مفادات کی ضمانت ہے۔ ہم ہر فرد کے لیے رواداری اور احترام کے خواہاں ہیں تاکہ دنیا کو ایسا مقام بنایا جا سکے جہاں ہر شخص نسل، مذہب یا قومیت سے قطع نظر شاندار زندگی گزار سکے۔
’ہم انسانیت کو متاثر کرنے، انسانی صلاحیتوں کو زیادہ سے زیادہ اجاگر کرنے اور اقوام کو قریب لانے کے لیے سائنس، فن، طب اور تجارت کی حمایت کرتے ہیں۔ ہم انتہا پسندی اور تنازعات کے خاتمے کے خواہاں ہیں تاکہ تمام بچوں کو بہتر مستقبل فراہم کیا جا سکے۔
’ہم مشرقِ وسطیٰ اور دنیا بھر میں امن، سلامتی اور خوشحالی کے وژن کو آگے بڑھاتے ہیں۔ اسی جذبے کے تحت ہم اسرائیل اور اس کے ہمسایہ ممالک کے درمیان ابراہیمی معاہدے کے اصولوں کے تحت سفارتی تعلقات کے قیام میں ہونے والی پیش رفت کا گرم جوشی سے خیرمقدم کرتے ہیں۔ ہم پر امید ہیں کہ ہم مشترکہ مفادات اور بہتر مستقبل کے لیے مشترکہ عزم کی بنیاد پر ان دوستانہ تعلقات کو مضبوط اور وسیع تر بنائیں گے۔‘
ابراہیمی مشترکات کا پہلا خواب کس نے دیکھا تھا؟
مغرب میں سب سے پہلے 1811 میں ابراہیمی عقائد کی اصطلاح استعمال ہوئی۔ مشرقی علوم پر دسترس رکھنے والے فرانسیسی دانشور لوئس میسینون (Louis Massignon) وہ پہلے مفکر تھے، جنہوں نے مسیحیوں اور مسلمانوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے لیے مشترکات پر مبنی کتابیں اور مضامین لکھے۔
2000 کی پہلی دہائی میں اس اصطلاح کو تین ابراہیمی مذاہب کے درمیان روحانی سفارت کاری کے طور پر روشناس کروایا جانے لگا۔ یہ سمجھا جانے لگا کہ یہودیت، اسلام اور مسیحیت تینوں مذاہب میں امن، بھائی چارہ اور بقائے باہمی اسی وقت ممکن ہوسکے گی، جب اختلافی نکات کو نظر انداز کر دیا جائے۔
سابق امریکی صدر جمی کارٹر نے اپنی کتاب ’The Blood of Abraham‘ میں ’ابراہیمی مشترکات‘ اور ’ابراہیمی امن‘ کی اصطلاحات استعمال کرتے ہوئے کہا ہے کہ صرف اسی طریقے سے تینوں مذاہب کے درمیان امن کا حصول ممکن ہو سکتا ہے۔
ہارورڈ یونیورسٹی کا ایک منصوبہ جو سٹیٹ ڈپارٹمنٹ تک پہنچ گیا
2004 میں امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی نے ’Abraham Path Initiative‘ کے نام سے ایک منصوبہ شرع کیا، جسے امریکی حکومت کی حمایت بھی حاصل تھی۔ جس کا مقصد تینوں ابراہیمی مذاہب کے ماننے والوں کو ایک دوسرے کے قریب لانا تھا۔
بعد ازاں فلوریڈا یونیورسٹی نے بھی اس خیال کو آگے بڑھاتے ہوئے 2015 میں ایک کانفرنس منعقد کر ڈالی، جس میں خطے کے 18 ممالک جن میں اسرائیل، ترکی اور ایران بھی شامل کیے گئے، پر مشتمل ’United States of Abraham‘ کا تصور بھی پیش کر دیا گیا۔ مسلمان مفکرین نے اس منصوبے کو ’گریٹر اسرائیل‘ تعبیر کرتے ہوئے اسے رد کر دیا تھا۔
دوسری جانب اس منصوبے کے حمایتیوں کا خیال ہے کہ اس سے خطے میں دیرپا امن کے قیام میں مدد مل سکتی ہے۔ صدر ٹرمپ نے پہلی مدتِ صدارت میں یہ منصوبہ نہ صرف پیش کر دیا بلکہ اسرائیل کے ساتھ چار مسلمان ممالک نے اس منصوبے پر دستخط بھی کر دیے۔
صدر ٹرمپ جن کی نظریں امن کے نوبیل انعام پر ہیں۔ وہ سات مہینوں میں سات جنگیں بند کروانے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں اور اب وہ غزہ اور یوکرین کی جنگ بند کروانا چاہتے ہیں۔ اگر وہ اس میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ایک بار پھر ابراہیمی معاہدے کی بات شدو مد کے ساتھ کریں گے۔
بات اگر ابراہیمی مذاہب کے درمیان مشترکات کی بنیاد پر امن و سلامتی کی ہو تو یہ ایک شاندار آغاز ہو سکتا ہے، لیکن اگر ابراہیمی معاہدے کے اگلے مرحلے میں خطے میں اسرائیلی بالادستی کا خواب دیکھا جا رہا ہے تو پھر مسلسل آگ ہے اور اس کے سامنے اولادِ ابراہیم ہے۔
نوٹ: یہ تحریر بلاگر کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔