میں نے کرکٹ ٹیم کی کارکردگی کی وجہ سے میچ دیکھنا ہی چھوڑ دیے ہیں تاہم جب پاکستان انڈیا ٹاکرا ہو تو کون ہے جو میچ نہ دیکھے۔ اس کو تو ہم پاکستانی فرض سمجھ کر دیکھنا پسند کرتے ہیں۔
میں اور میرا بھانجا عبداللہ 28 ستمبر کو ایشیا کپ کا فائنل دیکھ رہے تھے۔ اس چھوٹے سے بچے کی کرکٹ انفارمیشن بہترین ہے۔ وہ مجھے اپنی کرکٹ ٹیم کی خامیاں گنوائے جا رہا تھا اور پڑوسی ٹیم کی اچھی کارکردگی کے بارے میں بتا رہا تھا۔
مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ وہ انڈین شائقین کی طرح تنگ دل نہیں ہے جو میچ ہارنے پر کبھی سٹیڈیم میں آگ لگا دیتے ہیں تو کبھی ٹی وی توڑ دیتے ہیں۔ وہ میچ کو کھیل کی طرح دیکھ رہا تھا اور کرکٹ پر تبصرے کر رہا تھا۔
مجھے اپنی ٹیم کی کارکردگی دیکھ کر بہت افسوس ہو رہا تھا کہ ہمارا مڈل آڈر کبھی بھی جم کر کھیل نہیں پاتا۔ فوری طور پر ہمارے کھلاڑی آؤٹ ہو جاتے ہیں۔ دوسری طرف انڈین بلے باز رنز کا ڈھیر بنا جاتے ہیں۔
نہ ہی ہمارے بولرز، نہ ہی ہمارے بلے باز اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر پاتے ہیں۔ رہی سہی کسر انڈیا کی ہٹ دھرمی اور ان کے شائقین کا رویہ پوری کردیتے ہیں۔ میں اکثر سوچتی ہوکہ کہ ہم کوئی 22 کروڑ سے زیادہ ہیں۔ کیا ہم میں کوئی دس بارہ بھی ایسے کھلاڑی نہیں جو رنز کا ڈھیر لگا دیں اور بولرز مخالفین کی وکٹیں اڑاکر رکھ دیں؟
پر پتہ نہیں سلیکشن کس بنیاد پر ہوتی ہے۔ میرے نزدیک ماڈلنگ سٹارڈم، عوامی سرگرمیوں اور شوز میں شرکت نے ہمارے کھلاڑیوں کو نکما کر دیا ہے۔ ان کو معلوم ہے کہ ہم سے بڑا کوئی سٹار پاکستان میں نہیں۔ شائقین اس کھیل کے علاوہ اور کوئی گیم نہیں دیکھتے، اس لیے ہم ہی راج کریں گے، پھر پرفارم کریں یا نہ کریں کیا فرق پڑتا ہے!
ایک کھیل پر سب کی توجہ کی وجہ سے پاکستان سے دیگر کھیل مٹ گئے، جن میں کبھی پاکستان عالمی چیمپیئن تھا۔ سنوکر، سکواش، ہاکی سب تقریباً ختم ہونے کے قریب ہیں۔ کروڑوں کے ملک میں کوئی اولمپک گیمز میں تمغے نہیں لاتا۔ سپانسر، حکومت اور میڈیا کی وجہ صرف کرکٹ پر ہے۔
اگر ہم اس سیریز کی بات کریں تو کرکٹ سیریز کے آغاز سے پاکستانی ٹیم کی کارکردگی تسلی بخش نہیں تھی۔ انڈین کھلاڑی معرکہ حق کی وجہ سے پاکستانی کھلاڑیوں سے دور دور نظر آئے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ جنگ اور سیاست کھیل کے میدان میں آگئی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈین ’آپریشن سندور‘ کی باتیں کرتے رہے اور پاکستانی چھ جہازوں کا تذکرہ کرکے ان کو چھیڑتے رہے۔ دو بار ایسا ہوا کہ انڈیا اور پاکستان کے کھلاڑیوں نے آپس میں ہاتھ نہیں ملایا، جس پر بہت شائقین مایوس ہوئے کہ کھیل کو جنگ میں تبدیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کھیل جنگ کے لیے نہیں امن کے لیے کھیلا جاتا ہے۔
فرحان کا سینچری پر جشن اور حارث رؤف کے اشارے جہاں بہت لوگوں کو اچھے لگے، وہاں بہت سے لوگوں نے کہا کہ کھیل میں ایسا نہیں ہونا چاہیے۔
اگر ہم فائنل کی بات کریں تو مجھ جیسے روٹھے ہوئے شائقن یہ سمجھ رہے تھے کہ جب معجزے سے ہم فائنل تک آگئے تو شاید ہم جیت بھی جائیں۔ پر عبداللہ نے مجھے کہا کہ خالہ یہ آپ کی خوش فہمی ہے۔
انڈیا نے 2016، 2018 اور 2023 میں بھی یہ کپ جیتا ہے۔ بطور شائق ہم سب کو صرف پاکستان اور انڈیا کے میچ تو یاد رہ جاتے ہیں، باقی سب بھول جاتا ہے۔ ان کی ٹیم میں وراٹ کوہلی اور روہت شرما جیسے بڑے کھلاڑی موجود نہیں تھے لیکن ان کی جگہ تلک، ابھیشک، شبھمن لے چکے ہیں۔
پاکستان کی ٹیم میں بابر اعظم کی کمی محسوس کی گئی۔ جب میچ کا آغاز ہوا تو فرحان اور فخر زمان کی وجہ سے لگا کہ شاید ہم میچ جیت جائیں لیکن ان کے بعد ہمارا کوئی کھلاڑی جم کر کھیل نہیں سکا۔
ابتدائی بلے بازوں کے علاوہ ہمارا کوئی کھلاڑی آٹھ سے زائد رنز نہیں بنا سکا۔ یوں پاکستانی ٹیم 147 پر پویلین لوٹ گئی اور انڈیا پانچ وکٹوں سے میچ جیت گیا۔ مجھے امید تھی کہ شاید ہم جیت جائیں لیکن ایسا نہیں ہوا۔
انڈین ٹیم کے رویے پر عبداللہ کہنے لگا کہ یہ تو سپورٹس مین سپرٹ نہیں کہ آپس میں ہاتھ نہ ملایا جائے اور ٹرافی لینے سے انکار کر دیا جائے۔ ان کے کھلاڑیوں نے میدان میں ٹرافی لینے سے انکار کر دیا۔ پاکستانی شائقین جہاں انڈیا کے رویے سے نالاں نظر آئے، وہیں دوسری طرف وہ اپنے بورڈ اور ٹیم سے شدید نالاں ہوئے۔ سوشل میڈیا پر تنقید کا طوفان برپا ہوگیا۔
سب سے زیادہ تنقید حارث رؤف پر ہوئی، کچھ کپتان سلمان آغا کو ذمہ دار قرار دیتے رہے۔ پھر کچھ لوگوں کو کرکٹ بورڈ میں سیاسی بھرتیاں یاد آگئیں۔ بہت سے شائقن وزیر داخلہ جو کہ پی سی بی کے چیئرمین بھی ہیں، سے نالاں نظر آئے اور ان کے استعفے کا مطالبہ کرتے رہے۔ وہ سیاسی شخصیت ہیں اس لیے انڈین کھلاڑیوں نے ان سے ٹرافی نہیں لی، اگر ان کی جگہ کوئی کھلاڑی ہمارے بورڈ کا چیئرمین ہوتا تو ایسا نہیں ہوتا۔
میچ کے اختتام پر انڈیا کی ٹیم نے میچز کی فیس اپنی فوج کو دینے کا اعلان کیا۔ جواب میں پاکستانی ٹیم نے اپنی فیس انڈین حملوں میں جان سے جانے والے بچوں کے اہل خانہ کے نام کر دی۔
شائقین کرکٹ مایوس ہیں۔ وہ ٹیم میں بابر اعظم اور محمد رضوان کی واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ میرے نزدیک جب تک پی سی بی کا انتظام کسی سابق کھلاڑی کو نہیں دیا جائےگا، کارکردگی ایسے ہی رہے گی۔ پی سی بی کو ایک فل ٹائم چیئرمین کی ضرورت ہے۔
مڈل آرڈر کے لیے نئے ٹیلنٹ کو متعارف کروایا جائے جو جم کر کھیلیں۔ دوسری طرف آئی سی سی پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کھیل کے میدان کو سیاسی اکھاڑے میں تبدیل نہ ہونے دے۔ یہ جینٹلمین کا گیم ہے، اسے جنگ میں تبدیل نہ کیا جائے۔ اس کھیل کو تعصب اور نفرت سے بچایا جائے۔
شائقین کرکٹ اس وقت رنجیدہ ہیں کہ ٹیم ایک بار پھر ان کی امیدووں پر پورا نہیں اتری اور دل کے ارمان آنسوؤں میں بہہ گئے۔ موجودہ ملکی حالات میں امید بھی نہیں کہ آگے ٹیم کی کارکردگی اچھی ہوجائے گی۔ فی الحال سب ایسا ہی رہے گا۔