’جادو کی جپھی!‘

معاشی اعتبار سے پاکستان طاقتوں کے درمیان ایک باریک رسی پر گامزن ہے تاہم پہلے کی نسبت قدموں میں مضبوطی ہے۔

پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف 17 ستمبر، 2025 کو سعودی ولی عہد سے ملاقات کے لیے قصر الیمامہ پہنچے (ایس پی اے)

صحرا میں ببول کے پھول کھلے ہیں، گویا امید نے ریگستان میں سبزے کا اہتمام کیا ہے۔ ضرورت نے ایجاد کو جنم دیا ہے یا سہولت نے کسی ہاتھ کو آہنی کیا ہے۔ جو ہوا ہے کیا وہ ناقابل یقین ہے؟

دس مئی کو انڈیا اور پاکستان کے جنگی ٹاکرے کے بعد اور گذشتہ چند ہفتوں میں ہونے والی عالمی سطح کی پیشرفت نے بالخصوص عالمی منظرنامے پر پاکستان کی حیثیت کو یکسر بدل دیا ہے۔

پاکستان - سعودی معاہدہ گویا کئی برسوں سے میز پر پڑا تھا لیکن خیال سے تصویر اور خواب سے تعبیر بننے میں فقط چند گھنٹے لگے؟ یہ سوال بہر حال اہم ہے۔

قطر پر اسرائیل کے حملے نے ایک بار پھر خطے کی مسلم مملکتوں کے شکوک و شبہات کو یقین میں بدل دیا ہے کہ اسرائیل اپنے ’گریٹر منصوبے‘ پر نہ صرف عمل پیرا ہے بلکہ کسی بھی ریاست کو خطے میں سانس لینے اور پنپنے دینے کو تیار نہیں۔

اس پس منظر میں خطے میں سلامتی کو لاحق خطرات اور عدم تحفظ نے مضبوط ترین عرب دنیا کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے۔ کیا یہ صورت حال پاک سعودی معاہدہ کا سبب بنی؟ کیا سعودی عرب اسرائیل سے تحفظ کی خاطر یہ ڈیل طے کر رہا ہے یا پھر علاقائی تحفظ کے نئے سکیورٹی خدوخال کو نگاہ میں رکھے ہوئے ہے؟

معاہدے کی شق کہ ’ایک پر حملہ دوسرے پر حملہ تصور ہو گا‘ اور ’سٹریٹیجک انضمام‘ کی اصطلاح پوری دنیا میں زیر بحث ہیں۔ کیا اس سے مراد پاکستان کے جوہری ہتھیار ہیں جو بوقت ضرورت مشترکہ طور پر آزمائے جا سکتے ہیں یا نیوکلیئر ہتھیار محض طاقت کے توازن کے طور پر دکھائے جا سکتے ہیں؟

کیا یہ بھی ممکن ہے کہ اب سعودی عرب سے ہتھیاروں کی سانجھ ہو؟ ہمارے پائلٹ امریکی جہازوں کو نہ صرف اُڑائیں بلکہ قطری رفال پر مہارت کے بعد جدید امریکی طیاروں پر بھی اپنے ہاتھ صاف کر لیں۔ اصلی اور وکھری چاندی تو یہ ہے کہ اب ہمیں دو تین ہفتوں سے زائد تیل کی بھی ٹینشن نہیں جبکہ مستعار لیے ڈالرز کی واپسی کا تقاضا بھی نہ ہو گا۔

ایک اور دلچسپ امر یہ کہ افغانستان کا علاج بھی ڈھونڈا جا رہا ہے کہ سعودی عرب کا ایک فتوی یا حکم افغانستان کو ٹی ٹی پی کی حمایت سے پیچھے ہٹا سکتا ہے۔ یہ سب انہونیاں ہونی میں بدل جائیں گی اس کے لیے دعا اور دوا دونوں جاری ہیں۔ بہرحال خطے میں طاقت کے توازن کا معاہدہ اور حرمین شریفین کی حفاظت پاکستان کے لیے ایک اعزاز ہے۔

یوں تو کہا جا رہا ہے کہ دو یا تین سال قبل اس معاہدے پر کام شروع کیا گیا مگر مُہر ثبت تب ہوئی جب اسرائیل نے قطر کو نشانہ بنایا اور امریکہ نے پس پردہ اسرائیل کی پُشت کو تھپ تھپایا۔ دوسری جانب امریکہ نے پاک سعودی دفاعی معاہدے پر اعتراض بھی نہیں کیا، کیا اس معاہدے میں امریکی آشیرباد ہے یا اسے محض علاقائی سکیورٹی بندوبست سمجھا جائے جیسا کہ یوکرین روس جنگ میں امریکہ اس تصور کا پرچار کر رہا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

غزہ کے مستقبل میں سعودی ارینجمنٹ اور بالواسطہ پاکستانی کردار پر بھی تبصرے کیے جا رہے ہیں۔ اس مکمل تصویر میں بھی پاک سعودی معاہدے کی نہ تو اہمیت سے انکار کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی پاکستان کی انڈیا اور اسرائیل کے مقابلے صف بندی کو مسترد۔

یہ حقیقت ہے کہ اس وقت پاکستان اور حکومتی عسکری قیادت کے بڑے ناقد بھی اس معاہدے کو سراہے بغیر نہیں رہ پا رہے۔

خطے میں ایک نئی پیش رفت پر بھی نگاہیں جمی ہیں کہ صدر ٹرمپ بگرام ائیر بیس کو واپس لینے پر بضد ہیں۔ طالبان قیادت کو جس رقم پر رضامند کرنے کی کوشش کی گئی ہے ذرائع بتا رہے ہیں کہ افغان حکومت اس سے تین گُنا زیادہ قیمت مانگ رہی ہے جس پر ناراضی کا اظہار ٹرمپ صاحب نے کر دیا ہے۔

صدر ٹرمپ افغانستان میں داعش کی موجودگی پر پہلے ہی تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔ اس صورت حال میں پاکستان کا کردار نمایاں ہو سکتا ہے جبکہ ٹرمپ چین کی نگرانی کے لیے بگرام بیس کی واپسی کے لیے پرامید دکھائی دے رہے ہیں۔

پاکستان کی امریکہ اور چین کے بعد سعودی عرب سے ’جادو کی یہ جپھی‘ وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کی جوڑی اور ’یک صفحہ پالیسی‘ کا نتیجہ قرار دی جا رہی ہے۔ انڈیا سے امریکہ تک اہم تبصرہ نگار اس پیش رفت کو جس نظر سے دیکھ رہے ہیں اس نے پاکستان کے موجودہ سیٹ اپ کو بھی سند دے دی ہے۔

ماضی کے مقابلے میں یہ نظام بقول خواجہ آصف کے ’ڈیلیور‘ کر رہا ہے مگر اصل محاذ معیشت کا ہے اور اس محاذ پر کامیابیاں ہی عوام کو مطمئن کر سکتی ہیں۔

معاشی اعتبار سے پاکستان طاقتوں کے درمیان ایک باریک رسی پر گامزن ہے تاہم پہلے کی نسبت قدموں میں مضبوطی ہے۔ ایک بات طے ہے کہ اندرونی طور پر موجودہ سیٹ اپ کی مشکلات کافی کم ہوئی ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ