ادیبہ ملک کی بطور لارڈ لیفٹیننٹ تقرری کو کیوں اہم قرار دیا جا رہا ہے؟

لارڈ لیفٹیننٹ کی ویب سائٹ پر دی گئی معلومات کے مطابق برطانیہ کے بادشاہ ہر کاؤنٹی سے وزیراعظم کی مشاورت سے اپنا ایک نمائندہ چنتے ہیں جو بادشاہ کے مفادات اور وقار کے لیے کام کرتا ہے۔

ادیبہ ملک کے والد محمد صادق کا تعلق لاہور سے ہے۔ وہ 1958 میں برطانیہ منتقل ہو گئے تھے۔ ان کی والدہ فہمیدہ کا تعلق سیالکوٹ سے ہے۔ ادیبہ ملک 30 ستمبر 1966 کو بریڈ فورڈ میں پیدا ہوئیں (مسلم ویمنز کونسل فیس بک)

ویسٹ یارک شائر کے شہر بریڈ فورڈ سے تعلق رکھنے والی پاکستانی نژاد خاتون ادیبہ ملک کو برطانوی بادشاہ چارلس سوم کی جانب سے لارڈ لیفٹیننٹ مقرر کیا گیا ہے۔

اس طرح وہ اس عہدے پر براجمان ہونے والی پہلی خاتون، مسلمان اور ایشیائی خاتون بن گئی ہیں۔ ادیبہ ملک کون ہیں؟ یہ عہدہ کیا ہوتا ہے اور موجودہ حالات میں بادشاہ کی جانب سے اس تقرری کو کیوں اہم قرار دیا جا رہا ہے؟

ادیبہ ملک کون ہیں؟

58 سالہ پروفیسر ادیبہ ملک بریڈ فورڈ کےغیر سرکاری ادارے کیو ای ڈی فاؤنڈیشن سے بطور ڈپٹی چیف ایگزیکٹو آفیسر وابستہ ہیں، جہاں وہ گذشتہ 30 سال سے اقلیتی طبقات کی فلاح و بہبود کے لیے کام کر رہی ہیں۔ اس ادارے کے چیف ایگزیکٹو اور بانی ڈاکٹر محمد علی ہیں جن کا تعلق ضلع اٹک کی تحصیل حضرو سے ہے۔

ادیبہ ملک کے والد محمد صادق کا تعلق لاہور سے ہے۔ وہ 1958 میں برطانیہ منتقل ہو گئے تھے۔ ان کی والدہ فہمیدہ کا تعلق سیالکوٹ سے ہے۔ ادیبہ ملک 30 ستمبر 1966 کو بریڈ فورڈ میں پیدا ہوئیں۔ انہوں نے گرنج سکول بریڈ فورڈ سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ہل یونیورسٹی سے گریجویشن اور پھر ماسٹرز کیا جس کے بعد بطور استاد پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا۔

بعد ازاں علاقائی اور قومی سطح پر مختلف سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر اہم ذمہ داریوں سے وابستہ رہیں۔ وہ کابینہ آفس کی سٹیٹ آنرز کمیٹی اور ہوم آفس کے سٹریٹیجک ریس ایڈوائزری بورڈ کی ممبر ہیں، بریڈ فورڈ کلچر کمپنی کی ڈائریکٹر، یارک سینٹ جانز یونیورسٹی کی ویزیٹنگ پروفیسر اور نرچر ایکڈیمکس ٹرسٹ سے بھی بطور رکن وابستہ ہیں۔

نیشنل ایتھنک مائنارٹی بزنس فورم کی سربراہ رہ چکی ہیں۔ شیفیلڈ ہالم یونیورسٹی کی گورنر بھی ہیں۔ انہیں ویمن اور ہوم میگزین نے جولائی 2023 کے ایڈیشن میں ’برطانیہ کی حیران کن خواتین‘ کی فہرست میں ٹاپ ٹین میں شمار کیا تھا۔

انہیں گذشتہ سال ویسٹ یارک شائر کی ہائی شیرف بھی مقرر کیا گیا تھا۔ انہیں 2004 میں ایم بی ای اور 2015 میں سی بی ای کے قومی اعزازات سے بھی نوازا گیا۔

انہوں نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’کاؤنٹی کی 24 لاکھ سے زائد آبادی کے لیے بادشاہ معظم نے مجھے اپنا نمائندہ مقرر کر کے میری ہی نہیں تمام اقلیتی طبقوں کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ میں لارڈ لیفٹیننٹ کی حیثیت سے ویسٹ یارک شائر کے لوگوں کے ساتھ کام کرنے کے لیے پر جوش ہوں۔‘

لارڈ لیفٹیننٹ کا عہدہ کیا ہے؟

لارڈ لیفٹیننٹ کی ویب سائٹ پر دی گئی معلومات کے مطابق برطانیہ کے بادشاہ ہر کاؤنٹی سے وزیراعظم کی مشاورت سے اپنا ایک نمائندہ چنتے ہیں جو بادشاہ کے مفادات اور وقار کے لیے کام کرتا ہے۔

بادشاہ یا شاہی خاندان کے جتنے دورے کاؤنٹی میں ہوتے ہیں ان کا انتظام و انصرام بھی لارڈ لیفٹیننٹ کی ہی ذمہ داری ہوتی ہے۔ بادشاہ کی جانب سے رائل گارڈنز میں جتنی بھی تقریبات ہوتی ہیں ان میں جو جو لوگ شریک ہوتے ہیں انہیں بھی لارڈ لیفٹیننٹ ہی بادشاہ کی جانب سے مدعو کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ مسلح افواج کی حمایت بھی انہی فرائض کا حصہ ہے۔

بادشاہ کی جانب سے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی جن جن شخصیات کو ایوارڈز دیے جاتے ہیں ان کی نامزدگی میں سب سے اہم کردار بھی لارڈ لیفٹیننٹ کا ہی ہوتا ہے۔ لارڈ لیفٹیننٹ اپنے علاقے کی فلاح و بہبود کے لیے خیراتی اداروں کے ساتھ مل کر کام بھی کرتا ہے۔

برطانیہ کے بادشاہ چارلس سوم نے سبکدوش ہونے والے لارڈ لیفٹیننٹ ایڈ اینڈرسن کی جگہ ادیبہ ملک کی تعیناتی پر انہیں خوش آمدید کہتے ہوئے اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ وہ ان کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے لیے مدد گار ثابت ہوں گی۔

لارڈ لیفٹیننٹ ایڈ اینڈرسن اپنی عمر کی حد 75 سال پورے ہونے پر اس عہدے سے سبکدوش ہو گئے ہیں۔

چارلس سوم کے اس اقدام کو غیر معمولی اہمیت کیوں مل رہی ہے؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 

برطانیہ میں آباد ایشیائی اور مسلمان طبقات کے لیے تو یہ انتہائی اہم خبر ہے کہ ادیبہ ملک یہ اعزاز پانے والی پہلی مسلمان اور ایشیائی پس منظر رکھنے والی خاتون بن گئی ہیں، لیکن برطانوی میڈیا اس تقرری کو اس لیے بھی اہم قرار دے رہا ہے کہ یہ ایسے ماحول میں ہوئی ہے جب برطانیہ میں تارکینِ وطن کے خلاف رائے عامہ تیزی سے ہموار ہو رہی ہے۔

گذشتہ دو سالوں کے دوران صرف ایکس پر کی گئی پوسٹوں کے نتائج بتاتے ہیں کہ برطانیہ میں تارکینِ وطن کے خلاف پوسٹوں میں 90 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

13 ستمبر کو لندن میں اکٹھے ہونے والے ڈیڑھ لاکھ سے زائد مظاہرین یہ مطالبہ کرتے نظر آئے کہ تارکین وطن کو ان کے وطن واپس بھجوایا جائے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حالیہ دورۂ برطانیہ کے دوران لندن کے میئر صادق خان کو شاہی ضیافت میں شرکت سے روک دیا۔ ان سب عوامل کے باوجود ادیبہ ملک کو بادشاہ کا نمائندہ نامزد کرنا غیر معمولی ہی سمجھا جا رہا ہے۔

انگلینڈ میں 48 کاؤنٹیز ہیں جن میں ویسٹ یارک شائر آبادی کے لحاظ سے چوتھی بڑی کاؤنٹی ہے۔

بریڈ فورڈ کی مساجد کی تنظیم کونسل برائے مساجد کے سابق ترجمان اشتیاق احمد نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ادیبہ ملک یہ عہدہ پانے والی پہلی غیر سفید فام، ایشیائی اور مسلمان خاتون بن گئی ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب برطانیہ میں دائیں بازو کی تنظیمیں اسلامو فوبیا اور نسل پرستی کو ہوا دے رہی ہیں بادشاہ کی جانب سے ادیبہ ملک کو یہ اعزاز دینا اس بات کی دلیل بھی ہے کہ برطانوی تاج اور یہاں کے جمہوری ادارے اس نفرت انگیز بیانیے کے خلاف کھڑے ہیں جو برطانیہ میں پھیلایا جا رہا ہے۔‘

محمد عجیب، جو بریڈ فورڈ کے پہلے ایشیائی لارڈ میئر رہ چکے ہیں، نے انڈیپنڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’یہ ایک تاریخی لمحہ ہے کیونکہ بادشاہ چارلس سوم نے ایک طرح سے پوری کاؤنٹی میں ادیبہ ملک کواپنا نمائندہ قرار دیا ہے۔‘

ڈاکٹر محمد علی جو کیو ای ڈی کے چیف ایگزیکٹو ہیں انہوں نے اس تعیناتی کو تمام نسلی اقلیتوں کے لیے خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ برطانوی سماج تنوع کو اپنی کمزوری نہیں بلکہ طاقت قرار دیتا ہے جس کا اظہار بادشاہ نے ادیبہ ملک کو یہ اعلی ٰ ترین عہدہ دے کر کیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ