برطانیہ کے نئے بادشاہ چارلس سوم اسلام سے کتنے قریب ہیں؟

برطانیہ کے نئے بادشاہ چارلس سوم کے کئی ایسے بیانات اور تقریریں موجود ہیں جنہیں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں نرم گوشہ رکھنے کا استعارہ سمجھا جاتا ہے۔

برطانیہ کے نئے بادشاہ چارلس سوم کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں، جس کی بنیاد وہ بیانات اور تقریریں ہیں جو انہوں نے برطانوی ولی عہد کی حیثیت سے کیں۔

مصنف گائلز ملٹن کی کتاب ’دا ریڈل اینڈ دا نائیٹ: ان سرچ آف سر جان مانڈی وِلی‘ (The Riddle and the Knight: In Search of Sir John Mandeville) میں قبرص کے مفتی اعظم ناظم الحقانی کا ایک قول موجود ہے، جب انہوں نے 1996 میں شہزادہ چارلس کے قبول اسلام کا غیر معمولی دعویٰ کیا تھا۔

کتاب چھپنے کے بعد بکنگھم محل کے ترجمان نے اس پر صرف ایک لفظ پر مشتمل رد عمل دیا کہ ’ناقابل فہم‘۔

شاہی ترجمان کی جانب سے اس وقت کے برطانوی شہزادے کے قبول اسلام کی تردید تو آ گئی لیکن کل کے ولی عہد اور آج کے بادشاہ چارلس سوم کے اسلام کی تعریف میں بیانات اور تقریریں نہ صرف ریکارڈ کا حصہ ہیں بلکہ برطانوی شاہی خاندان کی سرکاری ویب سائٹ پر بھی موجود ہیں۔

اسلام اور مغربی دنیا

چارلس سوم 1993 میں آکسفورڈ یونیورسٹی کے سینٹر فار اسلامک سٹڈیز کے سرپرست بنے۔

اس موقعے پر 27 اکتوبر 1993 کو انہوں نے ’اسلام اور مغربی دنیا‘ کے عنوان سے ایک مقالہ نما تقریر کی۔

انہوں نے کہا کہ ’سلطنت عثمانیہ کے زیر سایہ بلقانی خطے میں مظالم کی مثالیں مغربی جذبات کی گہرائیوں میں سرایت کر چکی ہیں، لیکن یہ خطرہ یک طرفہ نہیں تھا۔‘

سلطنت عثمانیہ کے زیر اثر رہنے والے جنوبی یورپی ممالک میں ہونے والی مبینہ نسل کشی کی وجہ سے اس موضوع پر میانہ روی پر مبنی خیالات کا اظہار یقیناً ایک بے باک اقدام تھا۔

چارلس سوم نے مزید کہا کہ ’1798 میں نپولین کے ہاتھوں مصر پر حملہ اور اس کے بعد 17ویں اور 19ویں صدی کے حملے اور جنگیں، جنہوں نے تقریباً تمام عرب دنیا کو مغربی طاقتوں کے کنٹرول میں دے دیا، سے سلطنت عثمانیہ کے سقوط کے بعد یورپ کا اسلام پر تسلط کا عزم پورا ہوا۔‘

مسلمان مغرب سے خوف زدہ کیوں ہیں؟

ستمبر 2001 میں امریکہ پر دہشت گردانہ حملوں کے بعد مغربی دنیا میں تمام مسلمانوں کو شدت پسند سمجھنے کا رجحان پیدا ہوا۔

ایسے کڑے وقت میں بھی چارلس سوم کا قلم مغربی دنیا کو مسلمانوں کے بارے میں تحلیلِ نفسی کرنے کی دعوت فکر دیتا رہا۔

15 نومبر 2001 کو برطانوی اخبار ٹیلی گراف میں شائع ہونے والے ایک کالم میں شہزادہ چارلس نے لکھا: ’مغرب میں ہمیں اسلامی دنیا کو بہتر طور پر جاننے کے ساتھ معلومات کے لیے یہ سمجھنے کی بھی ضرورت ہے کہ کئی مسلمان حقیقت میں مغربی مادیت پرستی اور عمومی ثقافت کو اسلامی ثقافت اور طرز زندگی کے لیے مہلک چیلنج سمجھتے ہیں۔‘

لندن میں 7 جولائی 2007 کو دہشت گرد حملے ہوئے، جس میں تقریباً 58 لوگوں کی اموات ہوئیں۔

اس واقعے کے ایک ہفتے بعد ’ڈیلی مرر‘ اخبار میں شائع ہونے والے ایک آرٹیکل میں شہزادہ چارلس نے اسلام اور دہشت گردی کے تعلق پر اظہارِ خیال کیا۔

انہوں نے لکھا: ’کچھ لوگ کہیں گے کہ اس کی وجہ اسلام ہے، لیکن اس کی وجہ کچھ بھی ہو اسلام نہیں۔ یہ روایتی اسلام کا مذاق ہے۔ جیسا کہ میں سمجھتا ہوں کہ اسلام انسانیت، برداشت اور معاشرے کی تمیز کا درس دیتا ہے۔ مسیحیت اور یہودیت بھی یہی تعلیمات دیتی ہیں۔‘

چارلس نے لکھا تھا کہ ’ان ہی تعلیمات کی وجہ سے بہت سے مسلمانوں نے ان اور دیگر مظالم کی فوری مذمت کی ہے۔ وہ درست کہتے ہیں کہ ایسے کاموں کا کسی بھی سچے مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔‘

بین المذاہب ہم آہنگی

چارلس سوم کو جب اور جہاں موقع ملا، انہوں نے بین المذاہب ہم آہنگی پر مدلل گفتگو کی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

21 مارچ 2006 کو مصر کی جامعہ الازہر میں اپنی تقریر کے دوران انہوں نے کہا کہ ’ہم ابراہیمی مذاہب کا سب سے بنیادی اصول بھول جاتے ہیں۔ یہودیت میں ہے کہ اپنے پڑوسی سے پیار کرو جیسے خود سے کرتے ہو۔ مسیحیت میں ہے کہ وہ سب کچھ جو آپ چاہتے ہیں کہ دوسرے آپ کے ساتھ کریں، وہ آپ بھی دوسروں کے ساتھ کریں۔ اسلام میں ہے کہ آپ میں سے کوئی اس وقت تک ایمان والا نہیں ہو سکتا جب تک کہ اپنے بھائی کے لیے بھی وہی نہ چاہے جو اپنے لیے چاہتا ہے۔‘

مسلم دور حکومت میں وسائل کا بہتر استعمال

برطانوی شاہ چارلس سوم اسلام کی تعلیمات کے علاوہ مسلم دورِ حکمرانی میں قدرتی وسائل کے بہتر انتظام کی غرض سے کی جانے والی تعمیرات کے بھی معترف ہیں۔

اس کی مثال 9 جون 2010 کو آکسفورڈ یونیورسٹی کے شیلڈونین تھیٹر میں کی جانے والی ایک تقریر ہے، جس میں انہوں نے کہا: ’سپین کا نہری نظام جو 12 سو سال پہلے تعمیر کیا گیا تھا، آج بھی بہترین کام کر رہا ہے اور مسلمان دور حکومت سے پہلے جس طریقے سے مقامی آبادی پانی استعمال کرتی تھی وہ تباہ ہو چکا ہے۔‘

انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے مزید کہا تھا کہ ’اسلامی دور کی ایسی ہی انتظامی سکیمیں دنیا کے دیگر خطوں میں بھی موجود ہیں۔ جیسا کہ سعودی عرب میں واقع ہیما زونز جہاں چراگاہوں کے لیے زمین مختص کر دی گئی تھی۔‘

چارلس نے حاضرین کو بتایا کہ ’یہ مثالیں ہیں کہ کیسے بصیرت افروز تعلیمات، جو قرآن سے اخذ کی گئیں، چیزوں کے دور رس نتائج کو مدنظر رکھتی ہیں اور ذاتی یا نزدیکی فوائد کو خاطر میں نہیں لاتیں۔‘

’اسلام کے دل کی جانب سفر‘

شاہ چارلس سوم جب ولی عہد تھے تو انہوں نے کئی خاص موقعوں پر مسلمان برادری کے لیے دل کو چھو جانے والے پیغامات جاری کیے۔

برطانیہ اور دنیا بھر میں مسلمان برادری کو جاری کیے جانے والے ان پیغامات میں اکثر عربی زبان کے ایسے الفاظ شامل ہوتے جو ہر مسلمان کی زبان زد عام ہوتے ہیں۔

26 جنوری 2012 کو برٹش میوزیم میں حج کی نمائش کا افتتاح ہوا۔ اس نمائش کا عنوان تھا ’اے جرنی ٹو دا ہارٹ آف اسلام‘ یعنی ’اسلام کے دل کی جانب سفر۔‘

اس موقعے پر انہوں نے اس وقت کے سعودی فرمانروا اور خادم حرمین شریفین شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ اسلامی تعلیمات کے مطابق مکہ آنے والے حاجیوں کی میزبانی کرتے ہیں جس میں بہترین سہولیات موجود ہوتی ہیں۔‘

انہوں نے اس کار خیر کی مطابقت اس انداز میں پیش کی کہ ’یہ (کام) پہلے وقتوں میں پیغمبر اسلام کے خاندان کی جانب سے حاجیوں کی میزبانی کی یاد دلاتا ہے۔ یہ مقدس روایت حضرت ابراہیم تک جاتی ہے جنہوں نے کعبہ تعمیر کیا تھا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’میں امید کرتا ہوں کہ انشا اللہ یہ نمائش اپنے دیکھنے والوں کے لیے معلومات اور اطمینان کا باعث بنے گی۔‘

2020 میں کرونا وبا کے عروج پر رمضان کے ویڈیو پیغام کا آغاز ’السلام علیکم‘ سے کیا۔

پیغام میں برطانیہ کے مسلمان رضاکاروں کی خدمات کو سراہا جو کرونا وبا کے دوران لوگوں کی خدمت کرنے میں مصروف تھے۔

اس پیغام میں انہوں نے کہا کہ انہیں ادراک ہے کہ برطانیہ کی مسلمان برادری اپنے پیاروں کے جنازوں میں بھی شرکت سے عاری ہے۔ مسلمانوں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے اس وقت کے شہزادہ چارلس نے قرآن کی سورہ البقرہ کی آیت نمبر 286 کا حوالہ دیا، جس کا ترجمہ ہے کہ ’اللہ کسی پر اس کی برداشت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا