دنیا کی آبادی تقریباً ساڑھے، آٹھ نو ارب ہو گی جو 195 ممالک میں بٹی ہوئی ہے۔ ان ممالک میں سویڈن اور فن لینڈ جیسے خوش حال ترین ملک بھی ہیں اور سوڈان جیسے بدحال بھی۔
ہم انسان کہیں آمریت کے تحت سسک رہے ہیں اور کہیں جمہوریت میں پنپ رہے ہیں۔ ہماری مختلف دنیائیں ہیں جو ہمارے مختلف مزاجوں کو تشکیل دیتی ہیں۔
لیکن ہم نوع انسانی کی کچھ جبلتیں ہیں جو ہمارے جغرافیہ، نسل، قوم، دولت یا ترقی کی محتاج نہیں۔ یہ عادتیں ہم انسانوں میں کسی ڈی این اے کا نتیجہ نہیں، یہ بس ہیں۔
ان میں سے ہی ایک ہے انسانی ہمدردی کی جبلت، جو ہمیں غلط اور صحیح، حق اور باطل، ظالم اور مظلوم میں فرق کرنا سکھاتی ہے۔
اگر کوئی اپنی لالچ، ضرورت اور نیچ فطرت کے باعث ظالم کو ظالم نہیں کہہ رہا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسے علم نہیں کہ ظالم کون ہے۔
حدیث نبویﷺ ہے کہ تم میں سے جو کوئی کسی برائی کو دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے روکے، اگر اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اپنی زبان سے احتجاج و مذمت کرے اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو اپنے دل سے اسے برا سمجھے۔
یہ حدیث ہم انسانوں کی مختلف دنیاوی مجبوریوں کی جانب اشارہ ہے، ورنہ جیسے ہم انسانوں کو ٹھنڈے اور گرم کی پہچان ہے، بالکل ایسے ہی ظالم اور مظلوم کا فرق بھی ہمارے وجود کا حصہ ہے۔
وہ تمام افراد جو گلوبل صمود فلوٹیلا کا کاروان لے کر غزہ جا رہے تھے، وہ بھی اپنی اسی انسانی ہمدردی اور حق کا ساتھ دینے کی جبلت کے ہاتھوں مجبور ہیں۔
دنیا کی نظر میں دیوانے، سر پھرے یہ افراد اپنے گھر کا سکون چھوڑ کر اسرائیلی جارحیت کو چیلنج کرنے نکلے۔
فلوٹیلا میں جانے والے افراد نہ اپنی خوشحالی سے اکتائے ہوئے سماجی کارکن ہیں، جو کسی ایڈونچر کی تلاش میں غزہ کی جانب نکلے، نہ ہی وہ مذہبی جذبات سے لبریز کسی ثواب کے لالچ میں ہیں۔
ان کو صمود فلوٹیلا سے کسی سیاسی پوائنٹ سکورنگ کا بھی کوئی فائدہ نہیں کیونکہ طاقت ور حلقے یوں بھی غزہ کے نام پہ بدک رہے ہیں۔
گلوبل صمود فلوٹیلا میں 40 کشتیاں ہیں جن پہ تیرتے ہوئے تقریباً 500 افراد غزہ کی پٹی جا رہے تھے۔
تقریباً 44 ممالک سے تعلق رکھنے والے ان افراد میں سیاست دان، اداکار، انسانی حقوق کے کارکن، ڈاکٹرز وغیرہ شامل ہیں۔
ان میں پاکستان سے سابق سینیٹر مشتاق احمد خان اور سیدعزیر نظامی سمیت چار پاکستانی بھی ہیں۔ ان گنتی کے چند سو افراد کا مقصد یہ تھا کہ غزہ میں اسرائیلی ناکہ بندی کو چیلنج کیا جائے۔
دوائی، خوراک اور بچوں کے دودھ جیسی بنیادی امداد پہنچائی جائے اور دنیا کی توجہ اس انسانی بحران کی جانب مبذول کروائی جائے جو قحط اور اسرائیلی بمباری کا شکار فلسطینیوں پہ گزر رہی ہے۔
اس وقت کی اطلاعات کے مطابق اسرائیلی فورسز نے فلوٹیلا کے کارروان پہ ڈرون اور واٹر کینن سے حملے کیے ہیں اور درجنوں افراد کو اسرائیل اغوا کرچکا ہے۔
اسرائیل کا وحشیانہ پن کسی حد کو نہیں مانتا، اسرائیلی اسلحے کا نشانہ صرف فلسطینی نہیں بلکہ فلسطین کی مدد کرنے والا ہر بازو ہے۔
اور یہی انجام ہمیں گلوبل صمود فلوٹیلا کا نظرآ رہا ہے۔ اس واقعے کے بعد کئی ممالک کھل کر اسرائیل کی مذمت کر رہے ہیں جب کہ ترکی اور کولمبیا نے سخت ردعمل دیا۔
فلوٹیلا پہ اسرائیلی حملوں کے بعد دنیا کے کئی شہروں میں احتجاج شدت اختیار کر گیا ہے۔
یہ فلوٹیلا صرف امدادی مہم نہیں بلکہ انسانی ہمدردی کی خاطر بننے والے اتحاد اور ظالم کے خلاف مزاحمت کی علامت ہے۔
یہ 40 کشتیاں اگر غزہ کے مظلوموں تک پہنچ جاتیں تو سینکڑوں جانوں کو بچایا جا سکتا ہے، لیکن یہ کشتیاں اگر اپنی منزل تک نہیں پہنچ پائیں، تب بھی انسانی تاریخ میں یہ کاروان ہمارے اجتماعی شعور کا روشن ستارہ ہے۔
حتیٰ کہ یہ افراد ناکام بھی ہو جائیں تو ان کی ناکامی دنیا کو مجبور کرتی ہے کہ وہ فلسطین کے انسانی بحران کا حل جلد از جلد ڈھونڈے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا مجوزہ امن پلان اور اس میں چھپی کارستانی پہ اس وقت مباحثے ہو رہے ہیں۔ مسلمان ممالک کی کمزوری بھی اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔
لیکن ان مٹھی بھر افراد نے اسرائیل اور زایونسٹ لابی کے خلاف جو لہر پیدا کی وہ بین الاقوامی لابنگ اور انٹیلی جنس کے بس کی نہیں۔
یہ ان افراد کی مرہون منت ہے کہ وائٹ ہاؤس کا اوول آفس بھی تنہا فلسطین کی قسمت کا فیصلہ نہیں کرسکتا، نتن یاہو کی سربراہی میں زایونسٹ لابی کی عالمی تنہائی اب ان کا مقدر ہے۔
یہاں یورپ میں فلسطین کی حمایت اب کسی ایک تنظیم کا کام نہیں رہا۔ انسانی حقوق کو ماننے والا ہر فرد بیدار ہوچکا ہے۔
اسلامی ممالک میں اسرائیل کے خلاف ابھی اس درجے کے احتجاج نہیں ہو رہے جس وسیع پیمانے پہ یہاں یورپی عوام سڑکوں پہ ہیں۔
گلوبل صمود فلوٹیلا زندہ رہنے کی جدوجہد کا استعارہ بن رہا ہے۔ یہ افراد طوفان میں کشتیِ نوح کی طرح انسانیت کی رہی سہی ساکھ بچانے نکلے ہیں۔
یہ افراد آپ اور ہم جیسے موبائل فون واریئرز پہ چڑھا انسانیت کا قرض اتارنے والے لوگ ہیں، ان کی جیسے ہو سکے قدر کریں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈںٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔