غزہ میں انسانی امداد پہنچانے کی غرض سے روانہ گلوبل صمود فلوٹیلا بحری بیڑے میں شامل پاکستان کے سابق سینیٹر مشتاق احمد خان کی اہلیہ نے کہا ہے کہ بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب دو بج کر 40 منٹ کے بعد سے ان کا اپنا شوہر سے رابطہ منقطع ہو گیا۔
انہوں نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ عالمی فورمز کے ذریعے مشتاق احمد کی واپسی کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں۔
اسرائیلی افواج فلوٹیلا میں شامل کئی کشتیوں پر بدھ کے روز سوار ہو کر انہیں ایک اسرائیلی بندرگاہ پر لے گئی تھیں۔ روئٹرز کی طرف سے تصدیق شدہ اسرائیلی وزارت خارجہ کی ایک ویڈیو میں، فلوٹیلا کی سب سے نمایاں مسافر گریٹا تھنبرگ، فوجیوں کے گھیرے میں ڈیک پر بیٹھی ہوئی نظر آئیں۔
اسرائیلی وزارت خارجہ نے ایکس پر لکھا: ’حماس-صمود فلوٹیلا کی کئی کشتیوں کو بحفاظت روکا گیا ہے اور ان کے مسافروں کو ایک اسرائیلی بندرگاہ پر منتقل کیا جا رہا ہے۔‘
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں مشتاق احمد کی اہلیہ حمیرا طیبہ نے کہا کہ آخری مرتبہ گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ’ہماری کشتی اسرائیلی محاصرے میں ہے، لوگوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے مگر ابھی ہماری باری نہیں آئی۔ یہی لگ رہا ہے کہ عنقریب ہمیں بھی گرفتار کر لیا جائے گا۔ اس گفتگو کے بعد ان کا نمبر بند مل رہا ہے۔‘
مشتاق صاحب کی طرف سے رات تین بجے کے قریب یہ آخری پیغام ہمیں موصول ہوا جس کے بعد سے ہمارا رابطہ منقطع ہے۔
— Senator Mushtaq Ahmad Khan | سینیٹر مشتاق احمد خان (@SenatorMushtaq) October 2, 2025
اگرچہ وہ دو سال سے قوم سے اپیل کر رہے تھے کہ غ ز ہ میں انسانیت سوز قتل عام کو رکوانے کے لیے اپنی حکومت @GovtofPakistan پر دباؤ کا ہمارے پاس صرف ایک راستہ ہے کہ نکلیں اور… pic.twitter.com/U7xlM4ge3S
سوشل میڈیا پر خبریں زیر گردش ہیں کہ اسرائیلی فورسز نے سینیٹر مشتاق کو حراست میں لے لیا ہے، جس پر ان کی اہلیہ کا کہنا تھا کہ ’یقینی طور پر اس وقت یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ گرفتار ہو گئے ہیں یا ابھی تک کشتی میں ہیں مگر چونکہ ہمارا رابطہ ان سے منقطع ہو گیا ہے اس لیے زیادہ گمان اسی بات کا ہے کہ وہ اسرائیلی حراست میں ہیں۔‘
تقریباً 45 کشتیوں پر مشتمل گلوبل صمود فلوٹیلا پر ماحولیاتی مہم چلانے والی سویڈن کی شہری گریٹا تھنبرگ بھی سوار ہیں۔
فلوٹیلا گذشتہ ماہ سپین سے روانہ ہوا تاکہ فلسطینی علاقے کی اسرائیلی ناکہ بندی توڑی جا سکے، جہاں اقوام متحدہ کے مطابق قحط پڑ چکا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اسرائیلی بحریہ نے بدھ کو فلوٹیلا کو روکتے ہوئے خبردار کیا کہ وہ ان پانیوں میں داخل نہ ہوں جو اسرائیل کے مطابق اس کی ناکہ بندی کے دائرے میں آتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم فلوٹیلا کے منتظمین کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے روکے جانے کے باوجود زیادہ تر جہاز جمعرات کی صبح تک اپنی منزل کی جانب بڑھ رہے ہیں اور رکاوٹوں کے باوجود غزہ کی پٹی کے ساحل کے قریب پہنچ گئے۔
مشتاق احمد کی اہلیہ نے بتایا کہ ’ہم نے قومی سطح پر ہر فورم پر آواز اٹھا کر حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ میرے شوہر اور قافلے میں شامل دیگر پاکستانیوں کی حفاظت یقینی بنائی جائے۔
’ہم نے وزارت خارجہ کو ایک خط تحریر کیا ہے، ایوان بالا میں قرارداد پیش کی ہے اور اس کے ساتھ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن بھی فائل کر رکھی ہے۔‘
جماعت اسلامی کی رہنما اور سابق سینیٹر مشتاق کی اہلیہ کا کہنا تھا کہ ’چاہتے ہیں کہ ہماری حکومت عالمی فورمز کے ذریعے قافلے کی حفاظت یقینی بنوائے مگر اس مقصد کے لیے اسرائیل سے براہ راست رابطہ نہ کرے کیونکہ یہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے مترادف ہو گا۔‘
خیال رہے کہ پاکستان نے جمعرات کو غزہ کے لیے امداد لے جانے والے کشتیوں کے قافلے گلوبل صمود فلوٹیلا کو اسرائیل کی جانب سے روکے جانے کو جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے فلسطینیوں تک امداد کی بلاتعطل ترسیل کا مطالبہ کیا ہے۔
پاکستانی ایوان بالا کے سابق ممبر سینیٹر مشتاق احمد تیونس میں موجود ہیں اور غزہ میں امداد لے جانے والے ’گلوبل ثمود فلوٹیلا‘ کی 4 ستمبر 2025 کو روانگی کا اعلان کر رہے ہیں۔ pic.twitter.com/FuqwNgkryf
— Independent Urdu (@indyurdu) September 1, 2025
پاکستانی دفتر خارجہ نے جمعرات کو جاری کیے گئے بیان میں کہا کہ انسانی امداد کی دانستہ رکاوٹ چوتھے جنیوا کنونشن کے تحت بطور قابض طاقت اسرائیل کی ذمہ داریوں کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
’یہ قابلِ مذمت اقدام اسرائیل کی جارحیت کے تسلسل اور غزہ کی غیرقانونی ناکہ بندی کا حصہ ہے، جس نے 20 لاکھ سے زائد فلسطینیوں کے لیے شدید انسانی مصائب اور محرومیوں کو جنم دیا ہے۔‘
اس سے قبل ایکس پر پوسٹ کیے گئے بیان میں وزیراعظم شہباز شریف نے گلوبل صمود فلوٹیلا کو روکے جانے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا تھا: ’اس فلوٹیلا میں 44 ممالک کے 450 سے زائد امدادی کارکن سوار تھے، جنہیں اسرائیلی افواج نے غیرقانونی طور پر حراست میں لے لیا۔ ان بے لوث کارکنان کا واحد ’جرم‘ یہ تھا کہ وہ بے کس اور مظلوم فلسطینی عوام کے لیے امداد لے جا رہے تھے۔‘