ٹرمپ کی دھمکی:بی بی سی عملہ ’اپنی صحافت کے لیے لڑے‘

ٹرمپ کی جانب سے ایک ارب ڈالر ہرجانے کی دھمکی کے بعد بی بی سی کے سبکدوش ہونے والے سربراہ نے عملے پر زور دیا ہے کہ وہ ’اپنی صحافت کے لیے لڑیں۔‘

میڈیا کے ارکان 10 نومبر، 2025 کو لندن میں بی بی سی کی عمارت کے باہر منتظر ہیں (اے ایف پی)
 

بی بی سی کے سبکدوش ہونے والے سربراہ نے عملے کو خبردار کیا ہے کہ ادارے پر ہونے والی تنقید کو ’بطور ہتھیار‘ استعمال کرنے کی کوششوں سے خبردار رہیں۔ اس وقت بی بی سی کو ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایک ارب ڈالر کے قانونی دعوے کا سامنا ہے۔

ٹم ڈیوی نے اعتراف کیا کہ ادارے سے ’کچھ ایسی غلطیاں ہوئیں جن کی بھاری قیمت چکانی پڑی‘ لیکن انہوں نے بی بی سی کے ’دشمنوں‘ پر تنقید کرتے ہوئے اپنے ساتھیوں پر زور دیا کہ وہ ’اپنی صحافت کے لیے لڑیں۔‘

بی بی سی کے پروگرام پانوراما میں امریکی صدر کی ایک تقریر میں ترمیم پر مستعفیٰ ہونے کے بعد ٹم کا عملے سے یہ پہلا خطاب تھا۔

ان کے یہ ریمارکس ایسے وقت پر آئے جب پینوراما پروگرام کی ٹیم پر دباؤ بڑھ رہا ہے اور ثقافت کے دو سابق سیکریٹریز نے دوسرے سینیئر عملے کے خلاف بھی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

یہ مطالبہ ایسے وقت پر ہو رہا ہے کہ جب ٹم ڈیوی اور ڈیبرہ ٹرنَس (چیف ایگزیکٹیو بی بی سی نیوز) اپنے استعفوں کا اعلان کر چکے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے بی بی سی پر اپنی چھ جنوری کی تقریر کو ’غلط انداز میں ایڈٹ‘ کرنے کے معاملے پر ایک ارب ڈالر ہرجانے کا مقدمہ دائر کرنے کی دھمکی دی ہے، حالانکہ بی بی سی پہلے ہی اسے ’فیصلے کی غلطی‘ قرار دے کر معافی مانگ چکا ہے۔ 

ٹرمپ کے وکلا نے بی بی سی کو خط لکھ کر جمعے تک معافی اور ازالے کا مطالبہ کیا ہے بصورت دیگر قانونی کارروائی کی دھمکی دی ہے۔

گذشتہ رات یہ رپورٹ سامنے آئی کہ بی بی سی کو موصول ہونے والی قانونی رائے کے مطابق ٹرمپ کو پینوراما پروگرام کے ایڈٹ سے کسی معنی خیز نقصان کا سامنا نہیں ہوا، اس لیے ادارے کو انہیں کوئی معاوضہ ادا کرنے کی ضرورت نہیں۔ 

آئی ٹی وی کے مطابق امکان ہے بی بی سی کا بورڈ ٹرمپ کے مطالبات کا مقابلہ کرے گا۔

یہ اس وقت سامنے آیا ہے جب پینوراما پروگرام کے ذمہ داروں پر دباؤ بڑھ رہا ہے کیونکہ بی بی سی کے چیئرمین سمیر شاہ نے تسلیم کیا کہ ’فیصلے میں غلطی‘ ہوئی تھی۔

شیڈو کلچر سیکریٹری نائیجل ہڈلسٹن نے مطالبہ کیا کہ بی بی سی ٹرمپ سے باقاعدہ معافی مانگے تاکہ ’ممکنہ قانونی کارروائی سے بچا جا سکے۔‘

سابق کلچر سیکریٹری جان وہٹنگڈیل نے دی انڈیپنڈنٹ سے گفتگو میں کہا ’میرا خیال ہے پینوراما کا یہ واقعہ بی بی سی کی اب تک کی سب سے سنگین ناکامی ہے۔ میں اسے محض ایک فیصلے کی غلطی نہیں سمجھتا۔ 

’یہ سنگین سوال اٹھاتا ہے کہ بی بی سی کا ایک معروف پروگرام ایسا مواد کیسے تیار کر سکتا ہے جس سے مکمل طور پر غلط تاثر پیدا ہو جیسا کہ خود چیئرمین نے تسلیم کیا۔ 

’اس بنیاد پر ٹم ڈیوی اور ڈیبرہ ٹرنَس نے استعفیٰ دیا، لیکن پینوراما کے ایڈیٹر اور دیگر براہ راست ذمہ داران کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی، جو واقعی حیرت کی بات ہے۔‘

ایک اور سابق کلچر سیکریٹری نکی مورگن نے کہا وہ بھی ’حیران‘ ہیں کہ پینوراما میں کسی کو برطرف نہیں کیا گیا۔ انہوں نے زور دیا کہ پروگرام کی سینیئر ایڈیٹوریل ٹیم کا ’یقینی طور پر‘ جائزہ لیا جانا چاہیے۔

عملے سے خطاب میں ٹم ڈیوی نے تسلیم کیا کہ ’یہ چند دن بہت مشکل رہے ہیں۔‘

انہوں نے کہا ’میری سب سے بڑی کیفیت اس وقت یہ ہے کہ میں اس ادارے سے شدید محبت کرتا ہوں۔ میں اس کے ہزاروں ملازمین کی انتھک محنت کی قدر کرتا ہوں۔ وہ اپنے کام میں واقعی غیر معمولی ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا ’میں اس ادارے پر فخر محسوس کرتا ہوں۔ اگرچہ بعض اوقات حالات مشکل ہوتے ہیں، لیکن ہمارا کام اچھا ہے اور وہ کسی بھی اخبار یا سیاسی ہتھیار سے زیادہ طاقت ور ہے۔ 

’ہم اس معاشرے کی بہترین مثال ہیں اور یہ کبھی نہیں بدلے گا۔ ہمیں اپنی صحافت کے دفاع کے لیے لڑنا ہو گا۔ 

’ہم سے غلطیاں ضرور ہوئیں لیکن ہمیں اپنے اصولوں کے لیے ڈٹے رہنا ہے۔ کوئی آپ کو یہ سوچنے سے نہ روکے کہ آپ شاندار کام کر رہے ہیں۔‘

اسی دوران لبرل ڈیموکریٹس نے پارلیمنٹ میں ایک قرارداد پیش کی ہے جس میں تھیریسا مے کے سابق مشیر سر رابی گب کو بی بی سی بورڈ سے ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا ہے تاکہ ادارے کی غیرجانب داری برقرار رکھی جا سکے۔

سر رابی گب، جنہیں بورس جانسن کی حکومت نے تعینات کیا تھا، حالیہ تنازعے کے مرکز میں ہیں۔

ان پر الزام ہے کہ انہوں نے بی بی سی میں نظامی تعصب کے معاملے پر سربراہی کی، جس نے بالآخر ڈیوی اور ٹرنَس کے استعفوں کو جنم دیا۔

کلچر سیکریٹری لیزا نینڈی نے خبردار کیا کہ بی بی سی کو اپنے ایک دہائی کے شاہی منشور (Royal Charter) کی آئندہ تجدید میں ’جدید دور کے تقاضوں کے مطابق اپنے مشن کو ازسرِنو تشکیل دینا‘ ہوگا۔ 

انہوں نے ان اراکین پارلیمنٹ پر بھی تنقید کی جو ’بی بی سی پر حملے صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ ان کے نظریات کی عکاسی نہیں کرتا‘ اور کہا ’انہیں سوچنا چاہیے کہ داؤ پر کیا لگا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

البتہ نینڈی نے سر رابی گب کو بورڈ سے ہٹانے کے مطالبات مسترد کرتے ہوئے کہا ’ایسا کرنے کے لیے قانونی حد بہت بلند ہے۔‘

ڈاؤننگ سٹریٹ نے ٹرمپ کے مقدمے پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا ’یہ معاملہ بی بی سی کا اندرونی ہے۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر عدالت بی بی سی کو ٹرمپ کو ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دے تو کیا حکومت اس کی مدد کرے گی تو ترجمان نے اس سوال کو ’فرضی‘ قرار دے کر مسترد کر دیا۔

ترجمان نے کہا ’ہماری پوزیشن واضح ہے۔ بی بی سی ایک آزاد ادارہ ہے اور اپنی اداراتی فیصلوں پر جواب دہی اسی کی ذمہ داری ہے۔ 

’ہم امریکہ کے ساتھ اپنی مشترکہ ترجیحات، بالخصوص سلامتی کے معاملات، پر قریبی تعلقات رکھتے ہیں۔‘

ڈاؤننگ سٹریٹ کے مطابق وزیر اعظم کیئر سٹارمر نے ٹرمپ سے ان کے قانونی اقدام کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔

بی بی سی کی ایڈیٹوریل سٹینڈرڈ کمیٹی کے سابق مشیر مائیکل پریسکاٹ کی رپورٹ میں یہ خدشات ظاہر کیے گئے کہ پینوراما نے ٹرمپ کی چھ جنوری، 2021 کی تقریر میں سے کچھ حصے اس طرح ایڈٹ کیے کہ یہ تاثر ملا جیسے وہ اپنے حامیوں سے ’کیپیٹل تک مارچ کرنے اور لڑنے‘ کو کہہ رہے ہوں۔

اس معاملے پر بند کمرے کے اجلاس کے بعد کامنز کلچر کمیٹی نے سمیر شاہ، سر رابی گب اور مائیکل پریسکاٹ کو پارلیمنٹ میں پیش ہونے کے لیے طلب کیا ہے۔ 

مائیکل پریسکاٹ بدھ کو کمیٹی کے سامنے گواہی دینے والے تھے، مگر اب یہ سیشن مؤخر کر دیا گیا ہے۔

ٹرمپ کے وکیل الیخاندرو بریٹو نے مطالبہ کیا ہے کہ ان کے مؤکل کے بارے میں ’جھوٹے، توہین آمیز اور اشتعال انگیز بیانات‘ فوری طور پر واپس لیے جائیں۔

ان کے خط میں خبردار کیا گیا ’اگر بی بی سی نے ہماری شرائط پر عمل نہ کیا تو مسٹر ٹرمپ اپنے تمام قانونی حقوق محفوظ رکھتے ہیں اور وہ کم از کم ایک ارب امریکی ڈالر کے ہرجانے کا مقدمہ دائر کرنے پر مجبور ہوں گے۔‘

بی بی سی نے تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا