ٹرمپ تقریر ایڈیٹنگ کا تنازع، بی بی سی کے ڈائریکٹر جنرل مستعفی

ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریر کے مبینہ طور پر گمراہ کن ایڈیٹنگ پر اٹھنے والے الزامات کے بعد بی بی سی کے دو اعلیٰ ترین عہدیداروں نے استعفیٰ دے دیا۔

بی بی سی کے ڈائریکٹر جنرل ٹم ڈیوی اور بی بی سی نیوز کی چیف ایگزیکٹو ڈیبورا ٹرنس جنہوں نے جانبداری کے متعدد الزامات لگنے کے بعد مستعفی ہونے کا اعلان کیا ہے (اے ایف پی)

ٹم ڈیوی نے برطانوی نشریاتی ادارے پر جانبداری کے متعدد الزامات لگنے کے بعد سنسنی خیز طور پر بطور بی بی سی کے ڈائریکٹر جنرل استعفیٰ دے دیا ہے۔

اتوار کی شام ایک حیران کن اعلان میں ٹم ڈیوی نے کہا کہ انہیں اپنی پانچ سالہ مدت ملازمت کے دوران ادارے میں ہونے والی ’کچھ غلطیوں کے لیے حتمی ذمہ داری‘ قبول کرنی پڑے گی۔

ان کے بعد بی بی سی نیوز کی چیف ایگزیکٹو ڈیبورا ٹرنس نے بھی اپنا استعفیٰ پیش کر دیا ہے۔ یہ پیش رفت اس مشکل ہفتے کے بعد سامنے آئی ہے جس میں برطانوی نشریاتی ادارے پر الزام لگا تھا کہ اس نے ’پینوراما‘ (بی بی سی کا ڈاکومنٹری فلیگ شپ پروگرام) کے ایک ایڈیشن میں ڈونلڈ ٹرمپ کی ایک تقریر کو منتخب طریقے سے ایڈٹ کیا۔

یہ تقریر اسی دن کی تھی جب امریکی کانگریس پر حملہ ہوا تھا۔

ٹم ڈیوی نے کہا کہ ان کا رخصتی کا عمل فوری طور پر نافذ العمل نہیں ہوگا اور وہ ’اگلے چند مہینوں میں ایک منظم عبوری عمل‘ کو یقینی بنانے کے لیے نظام الاوقات پر کام کر رہے ہیں۔ دوسری جانب ٹرنس نے اپنے بیان میں کہا کہ پینوراما ایڈیٹ کے بارے میں تنازع اس مقام تک پہنچ چکا ہے کہ یہ بی بی سی، ایک ایسا ادارہ جس سے وہ محبت کرتی ہیں، کو نقصان پہنچا رہا ہے۔‘

ادارے کے ان اعلیٰ پروفائل کے دو افراد کے مستعفی ہونے کا اعلان ایسے وقت پر ہوا ہے جب بی بی سی کو مالیاتی چیلنجز کا سامنا ہے اور اسے نیٹ فلکس جیسے آن لائن سٹریمنگ پلیٹ فارمز کے ساتھ ناظرین کی توجہ جیتنے میں سخت مقابلے کا سامنا ہے۔

توقع کی جا رہی تھی کہ بی بی سی پیر کو معافی مانگے گی کیونکہ مائیکل پریسکاٹ نامی سابق مشیر کی لیک شدہ یادداشت کے بعد ادارے کی غیر جانبداری پر خدشات اٹھے تھے۔

پریسکاٹ نے رواں سال یہ خدشات اٹھائے تھے کہ صدر ٹرمپ کی چھ جنوری 2021 کی تقریر کے کلپس کو اس طرح جوڑا گیا کہ ایسا تاثر ملتا تھا کہ انہوں نے اپنے حامیوں سے کہا کہ وہ ان کے ساتھ امریکی کیپیٹل کی طرف چلیں اور ’شدید لڑائی‘ کریں گے۔ دستاویزی فلم کا عنوان ’ٹرمپ: آ سیکنڈ چانس؟‘ تھا۔

یہ دستاویزی پروگرام پچھلے سال کے امریکی انتخابات سے ایک ہفتہ قبل نشر کیا گیا تھا اور ناقدین کا کہنا ہے کہ پروگرام گمراہ کن تھا اور اس سے وہ حصہ ہٹا دیا گیا جہاں امریکی صدر نے کہا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ حامی پرامن مظاہرہ کریں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ذاتی سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر ٹم ڈیوی کے استعفے کا خیرمقدم کیا اور بی بی سی کے ’دیانت داری سے عاری‘ ملازمین پر تنقید کی۔ اسی دوران ان کی پریس سیکریٹری کیرولین لیوٹ نے بھی بی بی سی کا مذاق اڑایا۔

ٹم ڈیوی نے عملے کو بھیجے گئے ایک بیان میں تصدیق کی کہ وہ بی بی سی کو 20 سال کے بعد چھوڑ رہے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا: ’یہ بالکل میرا فیصلہ ہے، اور میں اپنے پورے دور ملازمت کے دوران، خاص طور پر حالیہ دنوں میں، چیئرمین اور بورڈ کی غیر متزلزل اور متفقہ حمایت کا انتہائی شکر گزار ہوں۔‘

انہوں نے کہا: ’میں بورڈ کے ساتھ درست ٹائمنگز پر کام کر رہا ہوں تاکہ آنے والے مہینوں میں جانشین کے لیے ترتیب وار منتقلی ممکن ہو سکے۔‘

ٹم ڈیوی نے مزید لکھا کہ انہوں نے طویل عرصے تک اس عہدے کو سنبھالنے کے ذاتی اور مشکل پیشہ ورانہ تقاضوں پر غور کیا ہے۔ یہ بات بھی مد نظر ہے کہ میں اپنے جانشین کو وقت دوں تاکہ وہ بی بی سی کے مستقبل کے منصوبوں کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔‘

’ان دنوں جب دنیا زیادہ تقسیم شدہ ہے، بی بی سی کی اہمیت بہت خاص ہے اور یہ ہمارے بہترین پہلوؤں کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ برطانیہ کو ایک خاص مقام بنانے میں مدد دیتا ہے جہاں زیادہ تر لوگ مہربان، برداشت کرنے والے اور متجسس ہیں۔ ہر عوامی ادارے کی طرح، بی بی سی بھی کامل نہیں ہے اور ہمیں ہمیشہ کھلے پن، شفافیت اور جواب دہی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’بی بی سی نیوز کے بارے میں بحث میرے استعفیٰ کے فیصلے کا ایک سبب ہے حالانکہ یہ واحد وجہ نہیں ہے۔ بی بی سی عام طور پر اچھا کام کر رہا ہے لیکن کچھ غلطیاں ہوئی ہیں اور بطور ڈائریکٹر جنرل مجھے ان کی ذمہ داری لینی ہوگی۔‘

دوسری جانب 2022 سے چیف ایگزیکٹو کے عہدے پر فائز ڈیبورا ٹرنس نے کہا کہ انہوں نے ہفتے کی رات ٹم ڈیوی کو استعفیٰ پیش کیا اور اس کے ساتھ یہ بھی کہا کہ پینوراما ایڈیٹ کے گرد جاری تنازع کے باوجود یہ دعوے کہ بی بی سی نیوز ادارہ جاتی طور پر جانبدار ہے، غلط ہیں۔

اپنے عملے کو بھیجے گئے پیغام میں انہوں نے کہا: ’میں نے مشکل فیصلہ کیا ہے کہ اب میرا کام یہ نہیں رہے گا کہ میں آپ سب کی قیادت کروں جس مشترکہ مقصد کے لیے ہم سب کام کر رہے ہیں یعنی بغیر کسی ایجنڈے کے سچائی کی تلاش۔‘

صدر ٹرمپ کے بارے میں بنے پینوراما کے گرد جاری تنازع اس سطح تک پہنچ گیا ہے جہاں یہ بی بی سی کو نقصان پہنچا رہا ہے جو ایک ایسا ادارہ جس سے مجھے محبت ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’بی بی سی نیوز اینڈ کرنٹ افیئرز کی چیف ایگزیکٹو کے طور پر، ذمہ داری مجھ پر ختم ہوتی ہے، اسی لیے میں نے کل رات ڈائریکٹر جنرل کو اپنا استعفیٰ پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔

عوامی زندگی میں، لیڈروں کو مکمل جوابدہی کا مظاہرہ کرنا چاہیے، اسی لیے میں اِس عہدے سے الگ ہو رہی ہوں۔ اگرچہ غلطیاں ہوئیں، میں واضح کرنا چاہتی ہوں کہ حالیہ دعوے کہ بی بی سی نیوز ادارہ جاتی طور پر جانبدار ہے، غلط ہیں۔‘

ان کے بقول: ’ایک منقسم دنیا میں، بی بی سی نیوز کی صحافت پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہے اور مجھے آپ کے کام پر بے حد فخر ہے۔ ہم نے ایک عالمی رجحان کو مات دی ہے اور بی بی سی نیوز میں اعتماد بڑھایا ہے اور میں آپ سب کا شکریہ ادا کرتی ہوں، چاہے آپ دنیا میں کہیں بھی ہوں، آپ کی وہ دلیرانہ محنت کے لیے جس کی وجہ سے یہ ممکن ہوا۔‘

حالیہ مہینوں میں بی بی سی پر متعدد خامیوں اور غلطیوں کا الزام عائد کیا گیا ہے جن میں اپنی ہی درستگی کے ایڈیٹوریل رہنما اصولوں کی خلاف ورزی، متنازعہ باب وائلن کے گلاسٹن ‌بری سیٹ کی براہِ راست نشریات اور سابق ماسٹر شیف میزبان گریگ والس کے خلاف بدسلوکی کے الزامات شامل ہیں۔

برطانیہ کی وزیر ثقافت لیزا نینڈی نے ٹم ڈیوی کو عوامی خدمت کی نشریات کے لیے ان کی خدمات اور اہم تبدیلی کے اس دور میں بی بی سی کی قیادت کرنے پر شکریہ ادا کیا۔

انہوں نے کہا: ’بی بی سی ہمارے سب سے اہم قومی اداروں میں سے ایک ہے۔ ہر روز یہ بتاتا ہے کہ ہم کون ہیں، یہاں کے لوگ، جگہیں اور وہ کمیونٹیز جو برطانیہ میں زندگی بناتی ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کے بقول: ’اب، پہلے سے کہیں زیادہ، قابل اعتماد خبروں اور معیاری پروگرامنگ کی ضرورت ہماری جمہوری اور ثقافتی زندگی اور عالمی حیثیت کے لیے لازمی ہے۔

حکومت کے طور پر، ہم بورڈ کی حمایت کریں گے جب وہ اس عبوری عمل کا انتظام کرے گا اور ہم یہ یقینی بنائیں گے کہ چارٹر کے جائزے کو اس نئے دور کے تقاضوں کے مطابق ادارے کو ڈھالنے اور اسے قومی زندگی کے مرکز میں آنے والے دہائیوں کے لیے قائم رکھنے کے لیے ایک محرک بنایا جائے۔‘

اتوار کو پروگرام ’سنڈے ود لورا کینسبرگ‘ پر نینڈی نے کہا کہ وہ پراعتماد ہیں کہ بی بی سی کے افسران جانبداری کے الزامات کو اس سنگینی کے ساتھ جس کی یہ مانگ کرتا ہے، سنبھال رہے ہیں۔

بی بی سی کے چیئرمین سمیر شاہ نے کہا کہ یہ ادارے کے لیے ایک افسوسناک دن ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ٹم ڈیوی ایک شاندار ڈائریکٹر جنرل رہے ہیں جنہوں نے عزم، یکسوئی اور بصیرت کے ساتھ بی بی سی کو آگے بڑھایا۔

سمیر شاہ نے کہا: ’انہیں اور بورڈ نے پورا تعاون دیا ہے۔ تاہم، میں ان پر جاری ذاتی اور پیشہ ورانہ دباؤ کو سمجھتا ہوں جس نے انہیں آج یہ فیصلہ کرنے پر مجبور کیا۔‘

ان کے بقول: ’پورا بورڈ اس فیصلے اور اس کی وجوہات کا احترام کرتا ہے۔ ٹم نے بی بی سی کو اپنی زندگی کے 20 سال دیے ہیں۔ وہ ایک وقف اور متاثر کن رہنما ہیں اور پبلک سروس براڈکاسٹنگ پر پختہ یقین رکھنے والے ہیں۔‘

سمیر شاہ نے کہا: ’ٹم نے بہت کچھ حاصل کیا ہے۔ ان کی قیادت میں بی بی سی کا تبدیلی کا عمل جو کہ بے مثال تبدیلی اور مقابلے کے دور میں اس چیلنج کا سامنا کر رہا تھا، بخوبی شروع ہو چکا تھا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹرینڈنگ