صوبہ سندھ کے ضلع تھرپارکر کے راچند مینگھواڑ گذشتہ 50 سال سے دھاگے سے بننے والے چارپائی کے بان، شالیں اور دوسری چیزیں بنا رہے ہیں۔
70 سالہ راچند تحصیل ننگرپارکر سے سات کلومیٹر مغرب میں واقع ڈینھ نامی گاؤں کے رہنے والے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ ماضی میں اس علاقے میں کپڑا بنانے کا تمام کام ہاتھ سے ہوتا تھا اور یہ بازار میں دستیاب نہیں تھا۔
’صرف ہمارے گاؤں میں 30 خاندان یہ کام کیا کرتے تھے، مگر وقت کے ساتھ لوگ یہ ہنر چھوڑتے گئے۔ اب نہ صرف اس گاؤں بلکہ آس پاس کی بستیوں میں یہ کام کرتا ہوں۔‘
راچند نے اپنے دو بیٹوں کو بھی یہ ہنر سکھایا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس کام کو سیکھنے میں چھ سے آٹھ مہینے لگ سکتے ہیں۔
’مگر آج کل لوگ سیکھنے کے لیے وقت کم دیتے ہیں کیونکہ بازار میں چارپائی کا بان اور دیگر کپڑے آسانی سے دستیاب ہیں اور لوگ وہیں سے خرید لیتے ہیں۔‘
راچند مزید بتاتے ہیں کہ بازار سے 70 سے زیادہ رنگوں میں دستیاب دھاگے میں سے زیادہ چلنے والے رنگ خریدتے ہیں جبکہ ایک چارپائی کی بنائی میں پانچ سے سات رنگ استعمال ہوتے ہیں اور اس میں چار سے پانچ دن لگتے ہیں۔
ان کا ماننا ہے کہ جتنے رنگ خوبصورت اور معیاری ہوں گے، وہ اتنی ہی بہتر قیمت پر فروخت ہوں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک چارپائی کا وزن پانچ سے چھ کلوگرام ہوتا ہے، جو نہایت ہی موزوں مانا جاتا ہے۔
راچند کا کہنا تھا کہ تقریباً اتنے ہی دن شال اور کھیس بنانے میں بھی درکار ہوتے ہیں۔ چارپائی اور شال پانچ سے چھ ہزار میں بک جاتی ہیں۔
راچند اپنی ہاتھ کی بنی ہوئی شالیں، چارپائی کی بان اور دوسری اشیا مارکیٹ میں بیچنے کے لیے نہیں لے جاتے بلکہ خریدار ان کے پاس آتے ہیں۔
البتہ وہ پاکستان کے چھوٹے بڑے شہروں میں لگنے والے میلوں میں اپنی مصنوعات کی نمائش ضرور کرتے ہیں۔
راچند بارشوں کے موسم میں کام بند کر دیتے ہیں کیونکہ دھاگہ پانی سے خراب ہو سکتا ہے۔
ان چیزوں کے علاوہ راچند ایک مخصوص قسم کا کپڑا بھی بناتے ہیں جو صرف ننگرپارکر میں رہنے والی ایک قبیلے ’رباری‘ کی خواتین پہنتی ہیں۔