سکھر: ٹریکٹر کے فولادی جنگلے بنانے والے کاریگر لوڈشیڈنگ سے پریشان

بجلی کی بندش کو سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیتے ہوئے علی واہن سے تعلق رکھنے والے کاریگر صادق نے بتایا کہ ’دو گھنٹے بجلی آتی ہے، پھر چھ گھنٹے غائب ہو جاتی ہے۔ کام ہے، کاریگر ہیں، مگر بجلی نہیں۔‘

سکھر کے نواحی علاقے علی واہن سے تعلق رکھنے والے کاریگر صادق پچھلے 25 برسوں سے ٹریکٹر کے لیے فولادی جنگلے بنا رہے ہیں، جن کا کہنا ہے کہ یہ صرف جنگلے نہیں، کسان کی گاڑی کی خوبصورتی، تحفظ اور توازن کے لیے ایک مکمل سیٹ ہوتا ہے، تاہم وہ بجلی کی لوڈشیڈنگ سے پریشان نظر آئے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں صادق نے بتایا کہ جنگلے کے ساتھ ساتھ ’سیٹ، ایکسیلیٹر، پیچھے لگنے والی پلیٹ، ہچ اور شو شاہ‘ بھی تیار کیے جاتے ہیں۔

 مقامی اصطلاح میں ’شو شاہ‘ ڈیکوریشن کو کہتے ہیں، جو لوہے کے پتوں، جھومر، گھنگھرو اور دیگر آرائشی عناصر پر مشتمل ہوتی ہے۔ ان میں ہر سال نت نئے ڈیزائن متعارف کروائے جاتے ہیں تاکہ کسان کا شوق برقرار رہے۔

صادق کے مطابق ایک مکمل جنگلہ تیار کرنے کے لیے پانچ سے چھ افراد پر مشتمل ٹیم کام کرتی ہے، جن میں سوراخ لگانے والا، بُنائی کرنے والا، رنگ کرنے والا، پینٹنگ کرنے والا اور سامان ڈالنے والا شامل ہے اور سب کا الگ الگ کام ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان جنگلوں کی مانگ صرف سکھر یا علی واہن تک محدود نہیں بلکہ ان کا سامان مورو، کنڈیارو، دادو، نواب شاہ، محراب پور، حتیٰ کہ پنجاب کے شہر سرگودھا تک سپلائی کیا جا چکا ہے۔

وہ بتاتے ہیں: ’ہم ہول سیل میں بھی مال دیتے ہیں اور کسان آرڈر کے مطابق بھی جنگلہ بنواتے ہیں، جس کا وزن 80 سے 140 کلو تک ہو سکتا ہے۔‘

ریٹس کے بارے میں صادق نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جنگلے کی قیمتیں عموماً 25 ہزار روپے سے شروع ہو کر 50 سے 70 ہزار روپے تک جا سکتی ہیں، جبکہ دیگر چیزوں کے نرخ وزن اور کوالٹی کے مطابق طے کیے جاتے ہیں۔

صادق کے بقول ٹریکٹر کے سامنے لگنے والے جنگلے گاڑی کے پیچھے کے وزن کے باعث سامنے سے اٹھنے سے روکتے ہیں، اس لیے یہ صرف شوق نہیں بلکہ ضرورت بھی ہیں۔

بجلی کی بندش کو کاروبار کی سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیتے ہوئے صادق نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’دو گھنٹے بجلی آتی ہے، پھر چھ گھنٹے غائب ہو جاتی ہے۔ کام ہے، کاریگر ہیں، مگر بجلی نہیں۔ پھر اوپر سے بل بھی اتنے آتے ہیں کہ تنخواہیں نکالنا مشکل ہو جاتا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ اس سال گندم کے نرخ بھی کم رہے، جس سے کاریگروں اور ہنر مندوں کے کام پر اثر پڑا۔

صادق کے مطابق عام طور پر کسان فصل بیچ کر جنگلے بنواتے ہیں، مگر اس بار قوتِ خرید کم ہونے کی وجہ سے آرڈر کم موصول ہوئے۔

علی واہن کے یہ دیسی جنگلے نہ صرف دیہی معیشت کے لیے اہم ہیں بلکہ ہنر، ثقافت اور شوق کے خوبصورت امتزاج کی علامت بھی ہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان