کوہستان: 28 سال بعد گلیشیئر سے کپڑوں سمیت محفوظ لاش برآمد

نصیرالدین کے بھائی، کثیرالدین، 1997 میں اس وقت ان کے ساتھ تھے جب یہ حادثہ پیش آیا۔ وہ دونوں گھوڑے پر سوار تھے جب نصیرالدین گلیشیئر میں لاپتہ ہو گئے۔

خیبر پختونخوا کے ضلع کولائی پالس میں ایک گلیشیئر سے 28 سال قبل برف میں دب جانے والے شخص کی لاش صحیح حالت میں برآمد ہوئی ہے۔  

کولائی پالس سپیشل برانچ پولیس کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ پولیس کیس نہیں تھا اور نہ ہی اس میں کوئی تفتیش درکار تھی۔

انہوں نے کہا کہ پولیس کا کیس اس لیے نہیں بنا کیونکہ 28 سال قبل نصیرالدین نامی شخص لاپتہ ضرور ہوا تھا، لیکن وہ اپنے بھائی کے ساتھ گھوڑے پر سوار تھا اور بھائی جانتا تھا کہ وہ گلیشیئر میں دب گیا ہے۔

اہلکار نے بتایا، ’بھائی کو معلوم تھا کہ ان کا بھائی کسی نے اغوا یا قتل نہیں کیا بلکہ وہ ان کے سامنے ہی گلیشیئر میں دب گیا تھا، اس لیے گمشدگی کی ایف آئی آر درج نہیں کروائی گئی۔‘

28 سال قبل نصیرالدین اپنے بھائی کے ساتھ الائی کے علاقے میں واقع لیدی ویلی گلیشیئر سے گھوڑے پر گزر رہے تھے کہ راستے میں نصیرالدین گھوڑے سمیت گہری کھائی میں گر گئے۔

پولیس اہلکار کے مطابق نصیرالدین کے خاندان کی اپنے علاقے میں دشمنی تھی، جس کی وجہ سے وہ علاقہ چھوڑ کر الائی میں آ کر رہائش پذیر ہو گئے تھے۔

نصیرالدین کے بھائی، کثیرالدین، 1997 میں اس وقت ان کے ساتھ تھے جب یہ حادثہ پیش آیا۔ وہ دونوں گھوڑے پر سوار تھے جب نصیرالدین گلیشیئر میں لاپتہ ہو گئے۔

کثیرالدین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ دشمنی کے باعث ہم پالس سے ہجرت کر کے الائی منتقل ہوئے تھے اور میں بھائی کے ساتھ سفر کر رہا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ نئی جگہ جانے کے لیے ہم نے پہلے چھ راتیں راستے میں گزاری تھیں اور ناران تک پہنچے تھے۔

پھر، کثیرالدین کے مطابق، ہم نے فیصلہ کیا کہ سڑک کے راستے نہیں جائیں گے کیونکہ دشمنی کی وجہ سے وہ محفوظ نہیں تھا، لہٰذا پہاڑوں کے اوپر سے جانے کا ارادہ کیا اور روانہ ہو گئے۔

کثیرالدین نے کہا، ’ہم صبح سویرے نکلے اور شام تقریباً چار بجے کا وقت تھا جب میرا 32 سالہ بھائی ایک گہری کھائی میں گر گیا، اُس کے ساتھ گھوڑا بھی تھا۔

’اس کے بعد جب ہم لیدی ویلی پہنچے، تو مجھے وہاں پہنچنے میں دو دن لگے۔ میں نے لوگوں کو بتایا کہ بھائی لاپتہ ہو گیا ہے، جس پر اگلے دن تقریباً دو سو افراد پہاڑی پر گئے اور تلاش کی کوشش کی، مگر کچھ نہیں ملا۔‘

کثیرالدین نے مزید بتایا، ’اصل میں بھائی برف سے بھری ایک گہری کھائی میں گر گئے تھے، جہاں پہنچنا انتہائی مشکل تھا۔ کئی دن کی تلاش کے بعد ہم نے لاش ڈھونڈنا چھوڑ دی اور اس وقت غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کر دی۔‘

اب 28 سال بعد لاش ملنے پر، کثیرالدین نے کہا کہ ’ہم ایسی کیفیت میں ہیں کہ نہ خوشی منا سکتے ہیں اور غم تو ویسے بھی تھا۔ 28 سال سے وہ لاپتہ تھے اور اب جب لاش ملی ہے تو وہی پرانا غم دوبارہ تازہ ہو گیا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ لاش مکمل طور پر خراب نہیں ہوئی تھی، صرف ایک ٹانگ اور بازو برف کی وجہ سے متاثر ہوئے تھے، جبکہ وہی پرانے کپڑے تھے جن کا رنگ ماند پڑ چکا تھا۔

کثیرالدین کے مطابق، ’جیب سے شناختی کارڈ، دو خطوط، نسوار کی ڈبیا، اور تسبیح ملی۔ تین دن کی کوشش کے بعد ہم لاش کے قریب پہنچے اور پھر اُسے لا کر گذشتہ روز تدفین کی گئی۔‘

گلیشیئر سے لاش کا نکلنا ’خطرے کی گھنٹی‘

حامد احمد، جو چترال میں اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کے تحت ’گلیشیئر لیک آؤٹ برسٹ فلڈ‘ (گلوف)  منصوبے کے پراجیکٹ منیجر رہ چکے ہیں، کے مطابق 28 سال بعد گلیشیئر سے لاش کا برآمد ہونا موسمیاتی تبدیلی کی زندہ مثال اور ایک خطرے کی گھنٹی ہے۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ دنیا میں اربوں سالوں سے گلیشیئرز موجود ہیں، اور اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ گلیشیئرز کے پگھلنے سے یہ اپنے اندر چھپی ہوئی کیا کیا چیزیں باہر لا سکتے ہیں، جو دنیا کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں۔

حامد احمد کے مطابق ’گلیشیئرز مختلف خطرناک وائرسز اور انسانی جسم کے لیے مضر جراثیم کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ ہوتے ہیں۔ لیکن جب یہ گلیشیئرز پگھلتے ہیں تو وہ وائرسز اور جراثیم باہر نکل کر انسانوں کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

امریکہ کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کے ایک تحقیقی مقالے کے مطابق منجمد گلیشیئرز وائرسز اور جرثوموں کی قدرتی آماجگاہ ہوتے ہیں، لیکن دنیا میں تیزی سے بڑھتے درجہ حرارت کے باعث برف تیزی سے پگھل رہی ہے۔

اسی تحقیق کے مطابق، کچھ جرثومے ہزاروں یا لاکھوں سال قبل ختم ہو چکے تھے، لیکن گلیشیئرز کے پگھلنے سے وہ دوبارہ زندہ ہو کر انسانوں کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔

مقالے میں سائبریا میں حالیہ انتھراکس کیس اور گلیشیئرز میں مختلف وائرسز و جراثیم کی موجودگی کو اس مفروضے کی عملی مثال قرار دیا گیا ہے۔

اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کے مطابق پاکستان میں ہمالیہ، ہندوکش اور قراقرم کے پہاڑی سلسلوں میں 13 ہزار سے زائد گلیشیئرز موجود ہیں، جن میں سے 3000 گلیشیئرز جھیلوں میں تبدیل ہو چکے ہیں، اور ان میں سے 33 کو خطرناک قرار دیا گیا ہے۔

حامد احمد کا کہنا ہے کہ چترال سمیت پاکستان کے بالائی علاقوں میں درختوں کی بے دریغ کٹائی درجہ حرارت میں اضافے کا سبب بن رہی ہے، جو کہ مزید نقصان دہ ہے۔

انہوں نے بتایا: ’پہاڑوں کے بالائی حصوں سے ایسے درخت کاٹے جا رہے ہیں جو موسمیاتی اثرات کا بہتر مقابلہ کر سکتے تھے، اور ان کی جگہ نچلے علاقوں میں ایسے درخت لگائے جا رہے ہیں جو نازک ہیں اور جن سے گلیشیئرز کے مزید پگھلنے کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔‘

گلیشیئرز کے اثرات کے حوالے سے حامد احمد نے کہا کہ پاکستان کا 70 فیصد صاف پانی گلیشیئرز سے حاصل ہوتا ہے۔ اگر آئندہ 30 یا 40 سال میں یہ گلیشیئرز ختم ہو گئے تو یہ ایک بہت بڑا ماحولیاتی سانحہ (ڈیزاسٹر) ہو گا۔

انہوں نے مزید کہا ’آج جو سیلاب یا دیگر قدرتی آفات ہمیں نظر آتی ہیں، یہ دراصل قدرت کی طرف سے ابتدائی وارننگز ہیں جو ہمیں متنبہ کر رہی ہیں کہ فوری تیاری کریں۔‘
حل کیا ہے؟

حامد احمد نے مسئلے کے حل کے طور پر زور دیا کہ ہمیں اپنے شمالی علاقوں سمیت پورے پاکستان میں جنگلات اور درختوں کی حفاظت کرنی چاہیے تاکہ ممکنہ ماحولیاتی تباہی سے بچا جا سکے۔
یو این ڈی پی کی 2025 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں گلیشیئرز کے پگھلنے سے 70 لاکھ سے زائد آبادی خطرے میں ہے، کیونکہ گلیشیئرز کے اچانک پگھلنے (گلاف) سے سیلاب آنے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔

پاکستان کی نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے مطابق، گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا جیسے بالائی علاقوں میں گلیشیئرز کی برف کا ذخیرہ 27 ہزار مربع کلومیٹر سے زائد ہے، لیکن ان علاقوں میں درجہ حرارت کے بڑھنے سے گلیشیائی سیلاب کا خطرہ بھی بڑھ گیا ہے۔

گزشتہ سال اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے این ڈی ایم اے کے اُس وقت کے سربراہ، لیفٹیننٹ جنرل انعام حیدر ملک نے بتایا تھا کہ نومبر 2023 سے اپریل 2024 کے دوران گلیشیئرز میں برف کی مقدار میں 23 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ گلیشیئرز کے سالانہ پگھلاؤ کی شرح تین فیصد ہے، جبکہ گزشتہ پانچ سال میں برف کی مقدار میں مجموعی طور پر 16 فیصد کمی ہوئی ہے۔

ماہرین کی مزید تحقیق

عمران حیدر، جو گذشتہ 10 سال سے کے ٹو سمیت قراقرم اور ہمالیہ کے 8 ہزار میٹر سے بلند پہاڑوں پر تحقیق کر رہے ہیں، کے مطابق پاکستان میں 3000 میٹر سے زائد کی بلندی پر ’ٹری لائن‘ (یعنی درخت اگنے کی آخری حد) پائی جاتی ہے، جہاں عموماً سبزہ اور درخت ہوتے ہیں۔

ان کے مطابق، ’4000 میٹر سے اوپر ’آئس لائن‘ ہے، یعنی وہ بلندیاں جہاں ہر وقت برف موجود رہتی ہے، لیکن اب یہ آئس لائن تقریباً 5000 میٹر تک کھسک گئی ہے — یعنی برف پگھل رہی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات