فلسطینی تنظیم حماس، اسرائیل اور امریکہ کے وفود پیر کو مصر میں مذاکرات کے لیے جمع ہو رہے ہیں جب کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ اب تک بہت اچھے ملاقاتیں ہوئیں اور انہیں لگتا ہے کہ درست سمت میں یہ معاملہ آگے بڑھ رہا ہے۔
تینوں فریقین کے نمائندے شرم الشیخ کے مصری سیاحتی شہر میں ملاقات کریں گے۔
حماس اور اسرائیل دونوں نے لڑائی ختم کرنے اور غزہ میں قیدیوں کی رہائی کے بدلے اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں کی رہائی سے متعلق ٹرمپ کے روڈ میپ پر مثبت ردِعمل دیا ہے، اگرچہ تفصیلات طے ہونا باقی ہیں۔
ایک سینیئر حماس عہدے دار نے اے ایف پی کو بتایا کہ تنظیم ’جنگ ختم کرنے کے معاہدے تک پہنچنے اور زمینی حالات کے مطابق قیدیوں کے فوری تبادلے کے عمل کے آغاز‘ کے لیے بہت پرعزم ہے۔
دوسری طرف اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو نے کہا کہ انہیں امید ہے قیدیوں کی رہائی چند دنوں میں ممکن ہو جائے گی۔
اتوار کو ٹروتھ سوشل پر پوسٹ میں ٹرمپ نے کہا کہ’یرغمالیوں کی رہائی اور جنگ کے خاتمے کے حوالے سے حماس اور دیگر فریقوں کے ساتھ بہت مثبت بات چیت ہوئی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ مذاکرات ’تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں‘ اور مزید بتایا کہ ’پہلا مرحلہ اسی ہفتے مکمل ہو جانا چاہیے اور میں سب سے کہہ رہا ہوں کہ تیزی دکھائیں۔‘
صدر ٹرمپ نے اتوار کو میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو میں قیدیوں کی رہائی کی تاریخ سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’ہماری کچھ بہت اچھی ملاقاتیں ہوئیں ہیں۔دنیا کے ممالک، اسرائیل کے ارد گرد بہت سے ممالک واضح طور پر، مسلم، عرب اور بہت سے دوسرے حماس کے ساتھ بہت اچھی ملاقاتیں کر چکے ہیں اور لگتا ہے کہیہ (طریقہ) کام کر رہا ہے۔‘
ٹرمپ نے معاہدے کو حتمی شکل دینے میں مدد کے لیے دو نمائندے بھیجے ہیں جن میں ان کے خصوصی ایلچی سٹیو وٹکوف اور داماد جیرڈ کشنر شامل ہیں۔
حماس نے اپنے ایک بیان میں بتایا کہ اس کے مرکزی مذاکرات کار خلیل الحیہ اتوار کی شب وفد کی قیادت میں مصر پہنچے۔ نتن یاہو کے مطابق اسرائیلی وفد پیر کو مصر روانہ ہو گا۔
امریکہ، مصر اور قطر کی مہینوں کی ثالثی کی ناکام کوششوں، جو اس تباہ کن جنگ کے خاتمے کے لیے کی جا رہی تھیں، کے بعد متعدد ممالک کے وزرائے خارجہ نے اپنے مشترکہ بیان میں تازہ سفارتی پیش رفت پر امید ظاہر کرتے ہوئے مذاکرات کو ایک ’حقیقی موقع‘ قرار دیا ہے تاکہ پائیدار جنگ بندی ممکن ہو سکے۔
اتوار کو امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے مذاکرات سے قبل اسرائیل پر زور دیا کہ وہ غزہ پر بمباری روک دے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’آپ فضائی حملوں کے دوران یرغمالیوں کو رہا نہیں کرا سکتے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
غزہ کی سول ڈیفنس ایجنسی کے مطابق اتوار کو اسرائیلی حملوں میں فلسطینی علاقے بھر میں کم از کم 20 افراد کی جان گئی۔
قاہرہ نے کہا ہے کہ نئے مذاکرات کا مقصد ’تمام اسرائیلی قیدیوں اور فلسطینی اسیروں کے تبادلے کے لیے زمینی حالات اور تفصیلات طے کرنا‘ ہے۔
قیدیوں کا تبادلہ
ایک فلسطینی ذریعے جو حماس کے قریب ہے، کے مطابق عسکریت پسند ’اپنی عسکری کارروائیاں روکنے کے لیے تیار ہیں‘ جب اسرائیل اپنی کارروائیاں روک دے گا۔
ٹرمپ نے کہا ہے کہ جب قیدیوں کا تبادلہ مکمل ہو جائے گا تو ’ہم اگلے مرحلے یعنی (اسرائیلی فوج کے) انخلا کے لیے حالات پیدا کریں گے۔‘
امریکی منصوبے کے تحت نہ صرف لڑائی روکنے کی بات گئی ہے۔ اس میں 72 گھنٹے کے اندر زندہ قیدیوں اور مردہ قیدیوں کی لاشوں کی حوالگی شامل ہے۔
فلسطینی عسکریت پسندوں نے اپنے سات اکتوبر کے حملے میں 251 اسرائیلیوں کا قیدی بنایا جن میں سے 47 اب بھی غزہ میں ہیں۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ ان میں سے 25 جان سے جا چکے ہیں۔
قیدیوں کے بدلے اسرائیل سے توقع کی جا رہی ہے کہ وہ عمر قید پانے والے 250 فلسطینی قیدیوں اور جنگ کے دوران گرفتار کیے گئے غزہ کے 1700 سے زیادہ قیدیوں کو رہا کرے گا۔
منصوبے کے اگلے مرحلے میں اسرائیلی فوج کا بتدریج انخلا اور حماس کا غیر مسلح ہونا شامل ہے جسے فلسطین ماضی میں ’سرخ لکیر‘ قرار دیتے رہی ہے۔
حماس کا اصرار ہے کہ اسے علاقے کے مستقبل کے بارے میں رائے دینے کا حق حاصل ہونا چاہیے، تاہم ٹرمپ کے منصوبے میں لکھا ہے ہے کہ وہ اور دیگر گروپ ’غزہ پر حکمرانی میں کوئی کردار نہیں رکھیں گے۔‘
ٹرمپ کی تجویز کے مطابق علاقے کا انتظام تکنیکی ماہرین پر مشتمل ادارہ سنبھالے گا جس کی نگرانی جنگ کے بعد کی عبوری انتظامیہ کرے گی جس کے سربراہ خود ٹرمپ ہوں گے اور اس میں برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر بھی شامل ہوں گے۔