غزہ میں تقریباً دو سال سے جاری جنگ کو ختم کروانے کے لیے اتوار کو مذاکرات کار مصری دارالحکومت قاہرہ میں جمع ہو رہے ہیں، جب کہ پٹی پر تازہ اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں ہفتے کو کم از کم 65 اموات ہوئیں اور 265 افراد زخمی ہوگئے۔
دوسری طرف اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو نے امید ظاہر کی کہ حماس کے پاس موجود قیدیوں کو چند دنوں میں رہا کروا لیا جائے گا۔
فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کی جانب سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ میں امن سے متعلق 20 نکاتی منصوبے کی جزوی حمایت کے بعد جنگ بندی کے لیے یہ سفارتی اقدام اٹھایا جا رہا ہے۔
سفارتی کوشش کے تحت مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی سے متعلق مذاکرات ہوں گے۔
یہ مذاکرات حماس کے سات اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حملے کو دو سال مکمل ہونے سے دو دن پہلے ہونے جا رہے ہیں، جس کے بعد سے اسرائیل غزہ پر متواتر فضائی اور زمینی حملے کر رہا ہے، جن میں 65 ہزار سے زیادہ اموات ہو چکی ہیں، جبکہ فلسطینی علاقوں کی ناکہ بندی کی وجہ سے وہاں قحط جیسی صورت حال ہے۔
حماس کے ایک عہدیدار نے کہا کہ مصر، جو جنگ بندی کے مذاکرات میں ثالث ہے، فلسطینی دھڑوں کے لیے غزہ میں جنگ کے بعد کے منصوبوں پر فیصلہ کرنے کے لیے ایک کانفرنس کی میزبانی کرے گا۔
ٹرمپ کے منصوبے پر اپنے ردعمل میں حماس نے اصرار کیا تھا کہ اسے علاقے کے مستقبل کے بارے میں کچھ کہنا چاہیے۔
ٹرمپ کے روڈ میپ میں کہا گیا ہے کہ حماس اور دیگر دھڑوں کا ’غزہ کی حکمرانی میں کوئی کردار نہیں‘ جبکہ جنگ کو روکنے، 72 گھنٹوں کے اندر قیدیوں کی رہائی، غزہ سے بتدریج اسرائیلی انخلا اور حماس کی تخفیفِ اسلحہ پر زور دیا گیا ہے۔
حماس کا ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے پر مثبت جواب، قیدیوں کی رہائی پر آمادگی لیکن غیر مسلح ہونے کے معاملے پر مزید مذاکرات کا عندیہ
— Independent Urdu (@indyurdu) October 4, 2025
مزید تفصیلات: https://t.co/2tMgTn9Nvb pic.twitter.com/5OeSIBRBzT
اس تجویز کے تحت علاقے کا انتظام ایک ٹیکنوکریٹک باڈی کے ذریعے سنبھالا جائے گا، جس کی نگرانی جنگ کے بعد کی عبوری اتھارٹی کے سربراہ کے طور پر خود ٹرمپ کریں گے۔
اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو نے ہفتے کو کہا کہ انہوں نے مصر کے مذاکرات کاروں کو ’تکنیکی تفصیلات کو حتمی شکل دینے‘ کا کہا ہے، جب کہ قاہرہ نے تصدیق کی ہے کہ وہ ’زمینی حالات اور تمام اسرائیلی اور فلسطینی قیدیوں کے تبادلے کی تفصیلات‘ پر بات چیت کے لیے حماس کے ایک وفد کی میزبانی بھی کرے گا۔
مصر کے سرکاری ذرائع ابلاغ نے اس سے قبل اطلاع دی تھی کہ متحارب فریق اتوار اور پیر کو بالواسطہ بات چیت کریں گے۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق ٹرمپ نے ہفتے کو دو ایلچی بھی مصر روانہ کیے، جن میں ان کے داماد جیرڈ کشنر اور ان کے مشرق وسطیٰ کے اہم مذاکرات کار سٹیو وٹ کوف شامل ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
امریکی صدر نے متنبہ کیا کہ وہ حماس کی طرف سے ’تاخیر برداشت نہیں کریں گے،‘ اور گروپ پر زور دیا کہ وہ ایک معاہدے کی طرف تیزی سے آگے بڑھے ’ورنہ تمام شرطیں ختم ہو جائیں گی۔‘
ہفتے کو ایک ٹی وی بیان میں، نتن یاہو نے حماس کو قیدیوں کی رہائی پر راضی ہونے کا سہرا ’فوجی اور سفارتی دباؤ‘ کو قرار دیا۔
نتن یاہو نے پیر سے شروع ہونے والے اور ایک ہفتے تک جاری رہنے والے یہودی تہوار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: ’مجھے امید ہے کہ آنے والے دنوں میں ہم اپنے تمام قیدیوں کو واپس لانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔‘
جمعے کی رات حماس نے اعلان کیا تھا کہ ’صدر ٹرمپ کی تجویز میں شامل تبادلے کے فارمولے کے مطابق تمام زندہ اور مردہ قیدیوں کی رہائی کے لیے اپنی منظوری دی گئی ہے۔‘
ٹرمپ نے فوری طور پر اس بیان کو سراہتے ہوئے کہا کہ حماس ’پائیدار امن کے لیے تیار ہے،‘ ساتھ ہی اس نے اسرائیل سے بمباری بند کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔
نتن یاہو نے ہفتے کو اپنے بیان میں اصرار کیا کہ ’حماس کو غیر مسلح کیا جائے گا۔ یا تو ٹرمپ کے منصوبے کے ذریعے سفارتی طور پر یا پھر ہماری طرف سے۔‘
اسرائیلی حملے جاری
تاہم ٹرمپ کی طرف سے کارروائیاں روکنے کے مطالبے کے باوجود، اسرائیل نے ہفتے کو غزہ پر حملے جاری رکھے۔
حماس کے زیرانتظام کام کرنے والی امدادی تنظیم سول ڈیفنس ایجنسی کے ترجمان محمود بسال نے کہا کہ ’آج صبح سے جاری اسرائیلی بمباری سے مرنے والوں کی تعداد 57 ہے، جن میں صرف غزہ شہر میں 40 شامل ہیں۔‘
اسرائیلی فورسز نے حالیہ ہفتوں میں شہر کے اطراف میں زبردست فضائی اور زمینی حملے کیے ہیں۔
غزہ شہر کے الرمل محلے کے رہائشی 39 سالہ محمود الغازی نے کہا کہ ٹرمپ کی جانب سے حملے روکنے کے مطالبے کے بعد سے اسرائیل نے دراصل اپنے حملوں میں اضافہ کر دیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا: ’اب اسرائیل کو کون روکے گا؟ ہمیں اس نسل کشی اور جاری خونریزی کو روکنے کے لیے مذاکرات کی رفتار تیز کرنے کی ضرورت ہے۔‘
دوسری جانب اسرائیلی فوج نے کہا کہ وہ اب بھی غزہ شہر میں کام کر رہی ہے اور رہائشیوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ وہاں واپس نہ جائیں، اور مزید کہا کہ ایسا کرنا ’انتہائی خطرناک‘ ہو گا۔