پاکستان کی غیر معمولی پذیرائی پر خوشی سے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے لیکن ساتھ ہی عقل سرگوشی کرتی ہے کہ جاگتے رہنا، ٹرمپ پہ نہ رہنا۔
ٹرمپ کے ساتھ پاکستان کے معاملات سلجھ جاتے ہیں یا ٹرمپ انڈیا کے مقابل پاکستان کی عزت افزائی کرتا ہے تو اس سے زیادہ خوشی کی بات اور کیا ہو سکتی ہے۔ تاہم دو پہلو ایسے ہیں جو ڈراتے ہیں کہ پاکستان امریکہ تعلقات کا یہ حسین موڑ کہیں شاخِ نازک پہ دھرا آشیانہ ثابت نہ ہو۔
پہلا مسئلہ ٹرمپ کی افتاد طبع ہے۔ یہ صاحب مستقل طور پر غیر مستقل مزاج ہیں۔ یہ دھوپ چھاؤں جیسی طبیعت رکھتے ہیں۔ مائل ہوں تو جل تھل ایک کر دیں اور برہم ہوں تو خشک سالی جیسے ہو جائیں۔
مارگلہ کے موسم کی طرح ان کا کوئی اعتبار نہیں۔ یہ دسمبر میں آگ برسانے اور جون میں یخ بستہ ہو جانے پر یکساں درجے کی قدرت رکھتے ہیں۔ مزاج میں موسم گل جیسی بے نیازی ہے۔ دوپہر کی دوستی کو سہہ پہر تک دشمنی میں بدل سکتے ہیں۔ جھونکے سے بگولا بننے میں انہیں لمحہ لگتا ہے۔ ان کی دوستی اور دشمنی دونوں ہی مقامات آہ و فغاں میں سے ہیں۔
یہ صاحب ایک زمانے میں پاکستان پر گرجتے برستے رہے اور اسے دھوکہ دینے کا الزام دیتے رہے، پھر وقت بدلا تو عمران خان کو وائٹ ہاؤس اس شان سے بلایا کہ وہ واپسی پر ورلڈ کپ جیتنے جیسے واہمے کا شکار ہو گئے۔
عمران خان پر برا وقت آیا تو یاروں نے گرہیں لگائیں، ٹرمپ کو آنے دو پھر دیکھنا تم لوگ۔ اور ٹرمپ آئے تو انہوں نے ایک بار بھی اڈیالے کی طرف نہیں دیکھا۔ اب وہ وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل کی تعریفیں کر رہے ہیں اور کیے ہی جا رہے ہیں۔
مودی سے ان کا کیسا تعلق خاطر سا تھا۔ کہاں ٹیکساس کی چکا چوند میں وہ بھائی چارا کہ مودی اور ٹرمپ ہاتھوں میں ہاتھ دیے جلوہ افروز ہوئے اور مودی جی پکار اٹھے: ’اگلی بار ٹرمپ سرکار‘۔۔۔۔ اور کہاں اب یہ عالم کہ ٹرمپ سرکار نے مودی جی کی کمر پر ٹیرف کے کوڑے اور گرائے گئے رافیل کے طعنوں سے لال اور ہری کر رکھی ہے۔
ایک زمانہ تھا ٹرمپ جی چینی صدر شی جن پنگ کو اپنا عظیم دوست قرار دیتے تھے اور پھر کرونا کا زمانہ آیا تو اسی عظیم دوست کو سینگوں پر لے لیا اور کرونا کو چائنا وائرس کہنے لگے۔ اس عظیم دوست کے ساتھ ان کی حالیہ ’دوستی‘ تو سارے عالم پر آشکار ہے۔
شمالی کوریا کے صدر کم جانگ کو طنز اور حقارت سے ’لٹل راکٹ مین‘ کہنے والے بھی ٹرمپ ہی تھے اور انہیں ’ویری ٹیلنٹڈ‘ کا خطاب دینے والے بھی موصوف ہی تھے۔
مزاجِ یار کے مدوجزر کی یہ ایک لمبی تاریخ ہے، جو بتاتی ہے کہ ٹرمپ صاحب کسی کو عظیم رہنما یا گریٹ مین کہہ دیں تو اسے زیادہ سنجیدہ نہیں لینا چاہیے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ٹرمپ کا یہ رویہ بتاتا ہے کہ ان کے دوستوں اور دشمنوں دونوں کو ایک درجے میں پریشان ہونا چاہیے۔
ٹرمپ کے ساتھ معاملہ کرتے وقت دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کیا ٹرمپ اور ان کی اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر ہیں؟ یعنی جو معاملات ٹرمپ کے ساتھ کیے جا رہے ہیں وہ واقعی امریکہ کے ساتھ کیے جا رہے ہیں یا ایک فرد واحد کے ساتھ؟ یعنی یہ معاملات دیرپا ہوں گے یا صاحب کے اقتدار کے ساتھ ہی ان کی مدت بھی تمام ہو جائے گی۔
امریکی صدر کے حوالے سے ایسا سوال بالعموم نہیں اٹھایا جاتا لیکن ٹرمپ کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ ان کے اپنی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات کا تناؤ ہمارے سامنے کی چیز ہے۔
امریکی اسٹیبلشمنٹ پالیسیوں میں تسلسل کی قائل رہی ہے جب کہ ٹرمپ کسی بھی وقت، اپنے مفاد میں کوئی بھی پالیسی اختیار کر سکتے ہیں۔ عمران خان کی طرح ان میں بھی یہ خوبی پائی جاتی ہے کہ وہ نہ صرف ہائی وے پر یوٹرن لے سکتے ہیں بلکہ ایسا کرتے وقت وہ کسی انڈی کیٹر کے تکلف کے بھی قائل نہیں۔ دونوں ایک پیج پر نہیں ہیں۔
ٹرمپ کا اپنی اعلیٰ فوجی قیادت سے حالیہ خطاب ہی دیکھ لیجیے۔ صاحب آغاز میں ہی فرماتے ہیں: ’جسے میری باتیں پسند نہیں وہ اس کمرے سے اٹھ کر جا سکتا ہے۔ البتہ جو جائے گا اس کا رینک بھی اس کے ساتھ جائے گا۔‘
اس کے بعد صاحب فرمانے لگے کہ جو فوجی افسر صاحب کو پسند نہیں ہو گا اسے گھر بھیج دیا جائے گا۔
امریکی اہل دانش کا خیال ہے کہ ٹرمپ امریکی فوج کو پولیس کی طرح سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ کچھ کا خیال ہے کہ فوج سے ذاتی وفاداری کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
اسٹیبلشمنٹ اور ٹرمپ کے درمیان یہ تناؤ نیا نہیں ہے۔ ماضی میں ایف بی آئی اور سی آئی اے جیسے ادارے کہہ چکے ہیں کہ روس نے ٹرمپ کو الیکشن جتوانے کے لیے انتخابی عمل میں مداخلت کی۔
ٹرمپ نے اس کا جواب یوں دیا کہ پوتن کے ساتھ کھڑے ہو کر اپنے ہی اداروں کو غلط قرار دے دیا۔ ٹرمپ صاحب خود ہی امریکی اداروں کے لیے ’ڈیپ سٹیٹ‘ کے الفاظ استعمال کر چکے ہیں۔
ٹرمپ اپنے ہی چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کو، ماضی میں غدار قرار دے چکے ہیں اور ان کے لیے سزائے موت تجویز فرما چکے ہیں۔ جنرل کیلی کو نااہل کا خطاب دے چکے ہیں۔ جنرل جیمز کو تاریخ کا سب سے اوور ریٹڈ جنرل قرار دے چکے ہیں۔ یہ بھی ایک لمبی کہانی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ انہیں ذاتی وفادار اچھے لگتے ہیں۔ جو تنقید کرتا ہے وہ انہیں گوارا نہیں۔
ان حالات میں یہ سوال ایک خدشہ بن کر سامنے آتا ہے کہ ٹرمپ سے کیے گئے معاہدوں کو امریکہ کی ’ڈیپ سٹیٹ‘ کتنا، کس حد تک اور کب تک اون کرے گی؟
چنانچہ اس ساری بحث کا خلاصہ یہی ہے کہ: جاگتے رہنا، ٹرمپ پہ نہ رہنا۔ نہ ان کے مزاج کا کوئی اعتبار ہے نہ اس بات کی کوئی ضمانت ہے کہ ان کے ساتھ ہونے والا کوئی معاملہ امریکی ریاست کے ساتھ معاملہ تصور ہو گا اور پائیدار ہو گا یا اسے فرد واحد کے ساتھ معاملہ سمجھا جائے گا اور اس کی نوعیت عارضی ہو گی۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔