قطر کی خودمختاری پر اسرائیلی حملہ بذات خود غیر متوقع نہیں تھا، لیکن دوحہ میں ثالثی کو اس کے اپنے گھر میں دھوکہ دینا امن کے معنی اور کسی بھی ممکنہ سمجھوتے میں ثالث کا کردار ادا کرنے کی صداقت کے بارے میں گہرے سوالات اٹھاتا ہے۔
قطر نے امریکیوں اور اسرائیلیوں کے ساتھ مفاہمت کے بغیر حماس کے رہنماؤں کی میزبانی نہیں کی تھی اور اگر تمام فریقین نے ثالث کے طور پر اس کے کردار کو قبول نہ کیا ہوتا تو وہ اس پیچیدہ معاملے میں دخل نہ دیتا، تو پھر دوحہ میں اس ثالثی کے مرکز کو نشانہ بنانے کا کیا مطلب ہے؟ یہ پیغام ناکام قاتلانہ حملے سے کہیں بڑھ کر ہے۔
دوحہ پر حملہ صرف ایک جنگی فیصلہ نہیں تھا، بلکہ اسرائیل کے اندر حقیقت کے لمحے کو مؤخر کرنے کی ایک کوشش تھی۔ کوئی بھی مبصر یہ سمجھتا ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو امن کے خواہاں نہیں ہیں، بلکہ وہ صرف اقتدار میں رہنا چاہتے ہیں، کیونکہ کوئی بھی جنگ بندی یا سمجھوتہ اس سیاسی اور سکیورٹی تباہی کی گہرائی کو بے نقاب کر دے گا، جس کی طرف انہوں نے سات اکتوبر 2023 سے اسرائیل کی قیادت کی ہے۔
یہ شخص تحقیقاتی کمیٹیوں، انٹیلی جنس کی ناکامی کے سوالات، یرغمالیوں کے خاندانوں کے دباؤ، فوج کے اندر تقسیم اور جمع ہونے والے معاشی نقصانات سے بھاگ رہا ہے، لہذا امریکی حمایت اسرائیل کی حمایت نہیں بلکہ ایک پریشان حال شخص کی حمایت ہے، جو خود کو داخلی احتساب سے بچانے کے لیے آگے کی طرف بھاگتا ہے اور خطے کو افراتفری میں غرق کر دیتا ہے۔
یہ دنیا کے لیے ایک پیغام ہے کہ اسرائیل معاہدوں سے غداری کرنے سے نہیں ہچکچاتا، اس لیے دوحہ پر حملہ ایک دہری رسوائی کا باعث بنا ہے۔ یہ اسرائیل کی رسوائی ہے جو دانستہ طور پر ثالث کو نشانہ بناتا ہے جبکہ وہ اسی میز پر اس کے ساتھ بیٹھا ہے اور یہ امریکہ کے لیے بھی رسوائی ہے، جس کا اسرائیل کے ساتھ اتحاد اس کے ایک سٹریٹجک اتحادی کی سرزمین پر اس جارحیت کو روکنے میں ناکام رہا، جو اس کے اہم ترین فوجی اڈوں کا میزبان ہے۔
یہ غزہ کے خلاف جنگ نہیں، بلکہ حقیقی معنوں میں بین الاقوامی برادری کے لیے ایک امتحان ہے کہ وہ اسرائیلی قبضے کی توسیع پسندی کی نیت اور قوانین اور معاہدوں کی خلاف ورزی کا کس طرح مقابلہ کرتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اور یہ واضح ہے کہ نتن یاہو موجودہ لمحے کا فائدہ اٹھا رہے ہیں تاکہ اسرائیل کی ایک ایسی ریاست کی تصویر کو دوبارہ پیش کیا جا سکے جس کا کوئی احتساب نہیں اور جسے وائٹ ہاؤس کی حمایت حاصل ہے، جو ایک طرف تو جنگ بندی کی بات کرتا ہے اور دوسری طرف بمباری کے لیے احاطہ فراہم کرتا ہے۔
اور جو لوگ آج امن کے مواقع کے بارے میں بات کرتے ہیں، انہیں ایک سادہ سے سوال کا جواب دینا چاہیے: نتن یاہو جیسے مجرم کی غیر مشروط حمایت سے کون سا امن حاصل ہو سکتا ہے؟ کون سی جنگ بندی ہو سکتی ہے جب واشنگٹن ایک ایسے شخص کو بااختیار بنا رہا ہے جو مذاکرات کو اپنی بقا اور سیاسی مستقبل کے لیے خطرہ سمجھتا ہے؟ اور کون سا نیا دروازہ کھل سکتا ہے جب ثالثوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہو اور ریاستوں کی خودمختاری کی خلاف ورزی کی جا رہی ہو، بغیر تعلقات، اتحاد، اور بین الاقوامی معاہدوں اور قوانین کا لحاظ کیے؟
دوحہ میں جو کچھ ہوا وہ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا، بلکہ ثالثی کے اقدامات کے ایک غیر یقینی مستقبل کی طرف ایک اشارہ ہے۔ اگر قطر، جس نے سب کی رضامندی سے ثالث بننا قبول کیا تھا، اس دھوکے کا شکار ہو سکتا ہے، تو مستقبل میں کوئی اور ملک یہ کردار ادا کرنے کی ہمت کیسے کرے گا؟ اور حماس یا کوئی بھی فلسطینی فریق کسی ایسے مذاکراتی عمل پر کیسے بھروسہ کر سکتا ہے، جس کی سرپرستی ایک بڑی طاقت کر رہی ہو، جو اپنے سب سے اہم ثالث کے ساتھ اس جارحیت کی اجازت دیتی ہو؟
آج ضرورت ہے کہ اس اسرائیلی بیہودگی سے نمٹنے کے طریقے پر نظر ثانی کی جائے، جو امریکی حمایت سے پروان چڑھی ہے۔ اگر اس مساوات کو دوبارہ ترتیب نہ دیا گیا اور نتن یاہو کے طرزِ عمل پر حقیقی حدود عائد نہ کی گئیں، تو یہ خطہ ایک ہی شخص کے رحم و کرم پر رہے گا، جو سب کو ایک کھائی میں دھکیل دے گا۔
کبھی اسرائیلی سلامتی کے نام پر، تو کبھی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر، لیکن اس کی قیمت ممکنہ امن کو چکانا پڑے گی۔
بشکریہ انڈپینڈنٹ عربیہ