فلسطینی گروپ حماس کے دو اعلیٰ عہدے داروں نے اتوار کو اے ایف پی کو بتایا کہ حماس اور امریکہ کے نمائندوں کے درمیان حالیہ دنوں میں دوحہ میں براہ راست مذاکرات ہوئے، جن میں سے ایک عہدے دار کے مطابق غزہ میں فائر بندی کے حوالے سے ’پیش رفت‘ ہوئی ہے۔
حماس کے ایک سینیئر عہدے دار نے کہا کہ ’دوحہ میں حماس کی قیادت اور امریکہ کے درمیان غزہ میں فائر بندی، قیدیوں کے تبادلے اور انسانی امداد کی فراہمی کے حوالے سے براہ راست بات چیت ہوئی، جو اب بھی جاری ہے۔‘
دوسرے عہدے دار نے کہا کہ ’خاص طور پر غزہ میں امداد کی فراہمی‘ اور اسرائیلی حراست میں موجود فلسطینیوں کے بدلے اسرائیلی قیدیوں کے ممکنہ تبادلے کے معاملے پر ’پیش رفت ہوئی ہے۔‘
اس حوالے سے انہوں نے خاص طور پر امریکی-اسرائیلی قیدی ایڈن الیگزینڈر کا ذکر کیا، جو حماس کی حراست میں ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’غزہ میں فائر بندی کے حوالے سے بھی پیش رفت ہوئی۔‘
حماس اور اسرائیل کے درمیان قطر، مصر اور امریکہ کی ثالثی میں لڑائی کے ابتدائی مہینوں سے بالواسطہ مذاکرات جاری ہیں، تاہم اب تک ان کا کوئی حتمی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔
امریکہ نے کئی دہائیوں تک عوامی سطح پر حماس سے براہ راست بات چیت سے انکار کیا کیونکہ وہ اسے ایک دہشت گرد تنظیم سمجھتا ہے، لیکن پہلی بار مارچ میں اس سے براہ راست رابطہ کیا گیا۔
حماس کا اصرار ہے کہ کسی بھی معاہدے کا اختتام اسرائیلی جارحیت کے خاتمے پر ہونا چاہیے اور اس نے 18 اپریل کو اسرائیل کی 45 روزہ فائر بندی اور قیدیوں کے تبادلے کی تجویز کو مسترد کر دیا تھا۔