غزہ کی بھوکی بستی پر مستقل قبضے کا خواب

بھوک اور قحط کی وجہ سے موت سے ہمکنار ہونے والے فلسطینی زبانِ حال سے کہہ رہے ہیں کہ بم سے مرنا آسان ہے، بھوک سے مرنا بہت مشکل ہے۔

بے گھر فلسطینی پانچ مئی 2025 کو وسطی غزہ کی پٹی میں واقع نصیرات پناہ گزین کیمپ میں ایک خیراتی باورچی خانے میں گرم کھانے کے حصول کے لیے جمع ہیں (ایاد بابا / اے ایف پی)

جنگوں میں بھوک اور پیاس کو ایک کارگر ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا سلسلہ اتنا ہی پرانا ہے جتنی جنگی تاریخ۔ شومیِ قسمت کہ بھوک اور پیاس کو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے متبادل کے طور پر استعمال کرنے کی شرم ناک تاریخ کربلا سے ہوتی ہوئی آج فلسطین کے ساحلی شہر غزہ کی پٹی میں دہرائی جا رہی ہے۔

اس پر مستزاد یہ کہ گذشتہ روز اسرائیلی کابینہ نے غزہ کی پٹی پر مستقل قبضے کے ایک ایسے منصوبے کی منظوری دی ہے، جس کے تحت اسرائیلی فوج تباہ شدہ غزہ کی پٹی میں غیر معینہ مدت کے لیے موجود رہ سکے گی۔

نتن یاہو کے مطابق: ’غزہ پر چڑھائی کے نئے مرحلے میں بھرپور عسکری کارروائی سے گریز نہیں کیا جائے گا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

غزہ پر مرحلہ وار بھوک، افلاس، قحط اور در بدری کی ذلت مسلط کرنے کی اسرائیلی کارروائیوں پر جس طرح عالمی ضمیر لمبی تان کر سویا رہا، اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ نتن یاہو کی کابینہ نے غزہ کے لیے سخت گیر عسکری کارروائی کی منظوری دے کر ایک تکلف ہی کیا۔

اسرائیل کے ہاتھ پہلے کس نے روکے، جو اب روک سکے گا، تاہم صہیونی حکام نے کابینہ کی منظوری کا تڑکہ لگا کر اپنی پیش آئند عسکری کارروائی کو قانونی جواز فراہم کرنے کی ایک ناکام کوشش ضرور کی ہے۔

بعض سیاسی تجزیہ کار صہیونی کابینہ کے فیصلے کو اسرائیل کی داخلی صورت حال کا پیش خیمہ بھی قرار دیتے ہیں کیونکہ اس فیصلے سے نتن یاہو کے اقتدار کی ڈولتی کشتی کو دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے کٹر انتہا پسند یہودی آبادکار وزرا کی حمایت ملنے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔

تجزیہ کاروں کا ایک مکتبہ فکر اسرائیلی کابینہ کے فیصلے کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیش آئند دورہ مشرق وسطیٰ سے جڑا ہوا اقدام بھی خیال کرتے ہیں کیونکہ میزبان ملک سے خطیر مالیت کے تجارتی معاہدوں کی خبریں تواتر کے ساتھ شہ سرخیوں کا موضوع بنی ہوئی ہیں۔

جنگ سے تباہ ہونے والی اسرائیلی معیشت کو سہارا دینے کے علاوہ غزہ پر کنٹرول کے لیے طویل المدت لام بندی کی خاطر تل ابیب امریکہ سے لمبا مال ہتھیانا چاہتا ہے۔ اس مقصد کے لیے صہیونی کابینہ کے فیصلے کو بطور جواز بھی پیش کیا جا سکتا ہے۔

اس ہولناک عسکری اور کینہ پرور سیاسی پیش رفت کے جلو میں غزہ کے اندر بھوک کا عفریت ایک چڑھتے ہوئے مرغولے کی مانند دکھائی دیتا ہے، جہاں شہر میں ہر بیکری اور عالمی ادارہ خوراک کے آٹے کے ذخائر کو نتن یاہو کی مسلط کردہ انسان کش اسرائیلی جنگ اور محاصرے نے اپنا ہدف بنا رکھا ہے۔

اس صورت حال میں قحط جیسی تباہی کے مہیب سائے اہالیانِ غزہ کی سمت بڑھتے دکھائی دے رہے ہیں۔ انسانیت سے عاری اسرائیل غزہ کی ایسی عمارتوں کے ملبے پر بلا روک ٹوک مہلک بموں سے حملے کر رہا ہے، جہاں اسے شک گزرے کہ یہاں کہیں خوراک موجود ہو سکتی ہے۔ اس سلسلے کو اب ڈیڑھ سال ہونے کو آیا ہے۔

شمالی غزہ میں اسرائیلی فوج اب بھی فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکال رہی ہے۔ گویا شمال سے وسطی غزہ اور وہاں سے جنوبی غزہ کی سمت ایک ’نکبہ‘ مسلسل جاری ہے۔ لوگوں کو بےسرو سامانی کے عالم میں اپنے گھروں سے نکالا جا رہا ہے۔ ان میں سے اکثریت اب خیموں میں زندگی گزار رہی ہے۔

یہ تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا اور خوف ناک واقعہ ہے کہ 20 لاکھ سے زیادہ انسانوں کو گھیر کر ایک اندھے قاتل کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ ایک بے ضرر عدالت میں مقدمے کی آخری لمحوں میں سماعت کی جا رہی ہے کہ اسرائیل و امریکہ کو یہ حق دیا جا سکتا ہے یا نہیں کہ وہ ان انسانوں کی امداد روک سکتے ہیں یا نہیں؟

اس سے بھی زیادہ الم ناک واقعہ یہ رونما ہو رہا ہے کہ مسلم ممالک بالخصوص آس پاس کے اہم ترین عرب ممالک کی مسلسل خاموشی نے مجرمانہ صورت اختیار کر لی ہے۔

یہ جرم کیا کم تھا کہ ہاتھ پاؤں باندھ کر فلسطینیوں کو اسرائیل کے آگے چارہ بنا کر ڈال دیا گیا تھا۔ ان کا جرم صرف یہ تھا اور ہے کہ وہ مسلم دنیا میں آزادی و حریت کا علَم لے کر نکلے تھے۔ اس علَم کو اٹھانے والوں کو کاٹ دیا گیا۔

اسرائیل نے صرف حماس کے خلاف جنگ نہیں چھیڑ رکھی بلکہ وہ ساری فلسطینی آبادی کے خلاف جنگ کر رہا ہے۔ قابض افواج قبضے میں اس طرح مصروف ہیں کہ مزاحمت کا ہر امکان ختم کرنے کے لیے امریکہ و یورپ کے جملہ وسائل کے ساتھ تباہی پھیلانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے ہیں۔

مسلم ممالک خاموش ہیں۔ وہ دم بخود نہیں ہیں۔ سب دیکھ رہے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔ عشروں پر مبنی جنگ کے اس مرحلے پر اسرائیل اس پر تُلا بیٹھا ہے کہ ہر فلسطینی بچے کو بھی ختم کر دے گا۔ ہر فلسطینی سن رہا ہے کہ اسے زندہ نہیں چھوڑا جائے گا۔ ایسا ہوا تو اسے بے دخل اور جلا وطن کر دیا جائے گا۔

دنیا دیکھ رہی ہے کہ اسرائیلی حکومت بار بار کہہ رہی ہے اور سرِ عام کہہ رہی ہے کہ بھوک اور قحط کو موت بنا دیں گے۔ واقعی مناظر یہی ہیں کہ انسانوں کو ان دو ہتھیاروں سے مارا جا رہا ہے اور جو مر رہے ہیں وہ کہہ رہے کہ بم سے مرنا آسان ہے، بھوک سے مرنا بہت مشکل ہے۔

اقوام متحدہ کے اداروں کا کہنا ہے کہ غزہ میں اس وقت پانچ لاکھ سے زیادہ فلسطینی موت و حیات کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اسرائیل ان سب کو بھوک سے مار رہا ہے۔ جگہ جگہ کھانے تقسیم کرنے والے غزہ میں موت تقسیم ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ خوراک کے ٹرک رفح پر کھڑے غزہ میں داخل ہونے کی اجازت کے منتظر ہیں۔ ان پر یہودی آباد کار، قابض فوج اور پولیس حملے کر رہی ہے۔ ان کو تباہ کر رہی ہے۔

ایسے میں غزہ کے اردگرد موجود عرب ممالک مئی میں امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے استقبال کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ ان کے ہاں بے شمار دسترخوان سجتے ہیں، انسانی امداد کے بڑے بڑے مراکز سے خوشنما پیکٹوں میں امداد کی ترسیل کی تصویریں ذرائع ابلاغ کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ جان کی اماں پا کر عرض کرنا چاہوں گا کہ غزہ کی کیفیت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سب دکھاوا اور ریاکاری کے سوا کچھ نہیں ہے۔

یہ سارے مناظر ہالی وڈ کی کسی ہارر فلم کے لگ رہے ہیں۔ نہیں! یہ اصلی مناظر ہیں۔ ابھی سے غزہ میں فلسطینی چلتے پھرتے انسانی ڈھانچے نظر آنے لگے ہیں۔ اسرائیل ان سے بری طرح خوفزدہ ہے۔ وہ ان ڈھانچوں کو تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے۔ لوگوں کو نیند نہیں آ رہی۔ وہ سونا بھول گئے ہیں۔

وہ صرف یہ جانتے ہیں کہ بم سے بچ گئے تو جلد ہی بھوک انہیں دبوچ کر فنا کے گھاٹ اتار دے گی۔ کون کب تک بھوک سے جنگ کر سکتا ہے؟ فلسطینی کہتے ہیں کہ بھوک سے لڑتے لڑتے سوچتے تھے کہ سو جائیں، لیکن کون کب تک ایسا کر سکتا ہے؟

فلسیطنی بتاتے ہیں کہ ہم میں بہت سے ایسے ہیں، جو یہ سوچتے ہیں کہ ملبے سے باہر نکل آئیں لیکن دھوپ کی تمازت ایسی ہے کہ بدن جھلس جاتے ہیں۔ بچے سب کچھ جانتے ہیں لیکن بھوک تنگ کرتی ہے تو کھانے کو مانگتے ہیں۔ بھوک پہلے ایک ڈراؤنا خواب تھی۔ اب زندگی ڈرا رہی ہے۔ غزہ بھوکا ہے، بھوک سے مر رہا ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر