غزہ میں جاری جارحیت کے خاتمے کے لیے ہفتے کو دوحہ میں فلسطینی تنظیم حماس اور اسرائیل کے درمیان ’بغیر کسی پیشگی شرط‘ بالواسطہ مذاکرات شروع ہو گئے ہیں۔
حماس کے ایک سینئر عہدیدار نے کہا کہ غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت کے خاتمے کے لیے اسرائیل کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات کا نیا دور ہفتے کو دوحہ میں ’بغیر کسی پیشگی شرط‘ کے شروع ہوا۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی (ے ایف پی) کے مطابق یہ اعلان اس وقت سامنے آیا جب اسرائیلی فوج نے غزہ میں ایک نیا حملہ شروع کیا، جسے’غزہ کی پٹی میں جنگ کے دائرہ کار میں توسیع‘ قرار دیا گیا۔
حماس کے سینیئر عہدیدار طاہر النونو نے کہا: ’یہ مذاکرات بغیر کسی پیشگی شرط کے دونوں طرف سے شروع ہوئے ہیں اور ان مذاکرات میں تمام معاملات پر بات چیت کے دروازے کھلے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’حماس تمام معاملات پر اپنی رائے پیش کرے گی، خاص طور پر جارحیت کا خاتمہ، (اسرائیل کا) انخلا اور قیدیوں کا تبادلہ۔‘
پہلے کے مذاکراتی دور جارحیت کے خاتمے پر کوئی بریک تھرو حاصل کرنے میں ناکام رہے، اور دونوں فریقین کے درمیان دو ماہ کی فائر بندی اس وقت ٹوٹ گئی جب اسرائیل نے 18 مارچ کو غزہ میں اپنی کارروائیاں دوبارہ شروع کیں۔
نئی لڑائی اس وقت شروع ہوئی جب اسرائیل نے علاقے پر مکمل امدادی ناکہ بندی عائد کر دی، جس کے بارے میں اقوام متحدہ کے اداروں نے خبردار کیا کہ اس سے خوراک، صاف پانی، ایندھن اور ادویات کی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے۔
اسرائیلی وزیر دفاع کاٹز نے حماس کو مذاکرات کی میز پر واپس لانے کا کریڈٹ اپنی شدت پسندانہ مہم کو دیتے ہوئے کہا: ’غزہ میں آئی ڈی ایف (اسرائیلی فوج) کمانڈ کے زیر قیادت آپریشن کے آغاز کے ساتھ، دوحہ میں حماس کے وفد نے قیدیوں کے معاہدے پر مذاکرات کی بحالی کا اعلان کیا ہے۔‘
غزہ میں قیدیوں کی رہائی کے لیے مذاکرات جاری ہیں، اور تازہ ترین بات چیت دوحہ میں ہو رہی ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو نے اس ہفتے کہا کہ انہوں نے ایک مذاکراتی ٹیم کو قطری دارالحکومت جانے کی ہدایت دی ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اسرائیلی افواج نے بمباری کی مہم مزید تیز کر دی ہے جس میں 72 گھنٹوں کے دوران سینکڑوں بے گناہ فلسطینی قتل کر دیے گئے ہیں اور ایک بڑے زمینی حملے کے لیے تیاری کی جا رہی ہے۔
فلسطینی صحت کے حکام نے بتایا کہ اسرائیل کی حالیہ بمباری مہم کے تیسرے دن میں کم از کم 146 افراد جان سے گئے، جو کہ مارچ میں فائر بندی ٹوٹنے کے بعد سے سب سے مہلک حملوں میں سے ایک ہے۔
مزید سینکڑوں زخمی ہسپتال میں زیر علاج ہیں، اور بے شمار لوگ ابھی بھی ملبے کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ غزہ کے مزید علاقوں پر قبضہ کرنے کے لیے ایک نئے آپریشن کی تیاری کر رہا ہے، جسے ’آپریشن گڈینز چیریٹس‘ کا نام دیا گیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مذاکرات کی ناکامی اور غزہ کا بحران
مارچ سے جاری مذاکرات فائر بندی کو بحال کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس فائر بندی کے تحت حماس کو اکتوبر 2023 میں اسرائیل پر حملے کے دوران پکڑے گئے قیدیوں کو رہا کرنا تھا۔
حماس کا موقف ہے کہ وہ قیدیوں کو اس وقت تک رہا نہیں کرے گی جب تک اسرائیل اپنی کارروائیاں ختم نہیں کرتا، جبکہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ حماس کے خاتمے تک حملے جاری رکھے گا۔
عرب لیگ کے اجلاس میں مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی، جن کا ملک قطر کے ساتھ غزہ امن مذاکرات میں ثالثی کر رہا ہے، نے کہا کہ اسرائیل کی کارروائیوں کا مقصد ’فلسطینیوں کو مٹانا اور ان کے وجود کا خاتمہ کرنا ہے۔‘
اقوام متحدہ کے ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے دو ماہ سے زیادہ عرصے سے سپلائی کی بندش کے بعد غزہ میں قحط کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے امدادی سربراہ ٹام فلیچر نے سلامتی کونسل سے اپیل کی ہے کہ وہ ’نسل کشی کو روکنے کے لیے اقدامات کرے۔‘
اسرائیل حماس کو شہریوں کے درمیان رہ کر کارروائیاں کرنے اور امداد کو ہائی جیک کرنے کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے، جبکہ حماس اس الزام کو مسترد کرتی ہے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ سال کے آغاز میں چھ ہفتوں کی فائر بندی کے دوران غزہ میں اتنی خوراک فراہم کی گئی تھی کہ فی الحال بھوک کا خطرہ ٹل جائے۔
جمعے کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ کے بڑھتے ہوئے بھوک کے بحران کا اعتراف کرتے ہوئے امداد کی فراہمی کی ضرورت کو تسلیم کیا۔ ایک امریکی حمایت یافتہ فاؤنڈیشن کا منصوبہ ہے کہ مئی کے آخر تک نجی امریکی سکیورٹی اور لاجسٹکس کمپنیوں کے ذریعے غزہ میں امداد کی تقسیم شروع کی جائے۔
تاہم اقوام متحدہ نے اس گروپ کے ساتھ تعاون سے انکار کر دیا ہے کیونکہ وہ غیر جانبدار، غیر متعصب اور آزاد نہیں ہے۔
شمالی غزہ کے انڈونیشی ہسپتال کے سربراہ مروان السطان نے کہا: ’آخری رات سے اب تک 58 شہدا موصول ہو چکے ہیں، جبکہ بہت سے زخمی اب بھی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ ہسپتال کی حالت تباہ کن ہے۔‘
این بی سی نیوز نے جمعے کو اطلاع دی ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ ایک منصوبے پر غور کر رہی ہے جس کے تحت 10 لاکھ فلسطینیوں کو غزہ سے لیبیا منتقل کیا جائے گا۔
تاہم، تمام بڑے فلسطینی سیاسی گروہ اس طرح کی کسی بھی جبری منتقلی کو مسترد کرتے ہیں۔