پاکستان سعودی عرب دفاعی معاہدہ خطے میں استحکام کا ضامن

یہ معاہدہ ایسے وقت سامنے آیا ہے جب مشرق وسطیٰ جنگ اور غیر یقینی صورت حال کی لپیٹ میں ہے، غزہ میں انسانی المیہ جنم لے رہا ہے اور بین الاقوامی سطح پر نئے اتحاد تشکیل پا رہے ہیں۔

17 ستمبر، 2025 کی اس تصویر میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان سٹریٹجک مشترکہ دفاعی معاہدے کے بعد سعودی ولی عہد اور وزیردفاع پاکستانی وزیراعظم اور فیلڈ مارشل کے ہمراہ دیکھے جا سکتے ہیں(پرائم منسٹر آفس)

پاکستان اور سعودی عرب نے 17 ستمبر کو ’سٹریٹجک باہمی دفاعی معاہدے‘ پر دستخط کیے۔ یہ معاہدہ اسلام آباد اور ریاض کے تعلقات میں ایک نئے دور کا آغاز ہے اور اس کے خطے کے استحکام اور مسلم دنیا کے اتحاد پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔

معاہدے میں طے پایا ہے کہ کسی بھی ملک پر ہونے والا حملہ دونوں پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ بظاہر یہ الفاظ سادہ ہیں لیکن ان کے اثرات انتہائی گہرے ہیں۔ یہ نہ صرف سعودی عرب کے ساتھ ہمارے تاریخی رشتوں کی تجدید ہے بلکہ تعلقات کو ایک باضابطہ مشترکہ دفاعی فریم ورک میں ڈھالنے کی علامت بھی ہے۔

پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات عام سفارت کاری سے بڑھ کر ہیں۔ ان کی بنیاد مشترکہ مذہب، تاریخ اور مسلم دنیا کے تئیں مشترکہ ذمہ داری پر ہے۔ کئی دہائیوں سے سعودی عرب نے پاکستان کا مشکل وقتوں میں ساتھ دیا ہے، بالخصوص معاشی بحران میں تیل کی سہولت اور مالی امداد فراہم کی۔

اس کے بدلے پاکستان نے اپنی عسکری مہارت مملکت کو فراہم کی، سعودی افسران کی تربیت کی، مشترکہ مشقیں کیں اور ارض مقدس کی سلامتی کے لیے عملہ تعینات کیا۔ 1967 سے اب تک پاکستان 8,200 سے زائد سعودی افواج کے اہلکاروں کو تربیت دے چکا ہے۔

مغربی میڈیا میں اس معاہدے کے ممکنہ جوہری پہلوؤں پر بہت قیاس آرائیاں کی گئی ہیں۔ کچھ تجزیہ کاروں نے سوال اٹھایا کہ کیا پاکستان سعودی عرب کو ’جوہری چھتری‘ فراہم کر رہا ہے؟ یہاں وضاحت ضروری ہے یعنی یہ معاہدہ جوہری ہتھیاروں کے اشتراک سے متعلق نہیں بلکہ روایتی تعاون، مشترکہ تربیت، ٹیکنالوجی اور انٹیلی جنس کے تبادلے پر مرکوز ہے۔

پاکستان اور سعودی عرب دونوں ذمہ دار ریاستیں ہیں جو جوہری عدم پھیلاؤ کے اصولوں کی پابند ہیں۔ اس کے باوجود پاکستان بطور جوہری طاقت اس معاہدے کو قدرتی طور پر ایک سٹریٹجک وزن دیتا ہے۔ معاہدے میں ’تمام عسکری ذرائع‘ استعمال کرنے کے عہد میں جو ابہام ہے، وہ کسی بھی جارحیت کے خلاف ایک مضبوط ڈیٹرینس فراہم کرتا ہے۔

اس معاہدے کا وقت بھی نہایت اہم ہے۔ یہ پیش رفت ایسے وقت سامنے آئی ہے مشرق وسطیٰ اس وقت جنگ اور غیر یقینی صورت حال کی لپیٹ میں ہے۔

غزہ میں انسانی المیہ جنم لے رہا ہے اور بین الاقوامی سطح پر اس پر نسل کشی جیسے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

غزہ سے آگے بڑھتے ہوئے، اسرائیل کی حالیہ عسکری کارروائیاں لبنان، شام، یمن، ایران اور یہاں تک کہ قطر تک پھیل گئی ہیں۔

یہ بڑھتی ہوئی جارحیت اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ اسرائیل عالمی دباؤ سے بے نیاز ہو کر کارروائیاں کر رہا ہے۔

خطے میں یہ تاثر گہرا ہو رہا ہے کہ اسرائیلی جارحیت بے قابو ہے اور خطے کے عدم استحکام کا باعث بن رہی ہے۔ اس تناظر میں ’وسیع ڈیٹرینٹ‘ کا پیغام ایک اہم اشارہ ہے۔

اس پس منظر میں پاکستان سعودی عرب دفاعی معاہدہ ایک اضافی سلامتی کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔

اسلام آباد کے لیے یہ معاہدہ اس کی جیو پولیٹیکل اہمیت کو بڑھاتا اور اسے عالمی و علاقائی فورمز میں زیادہ مؤثر بناتا ہے۔

ریاض کے لیے یہ ایک بڑی اور مؤثر مسلم فوجی طاقت کی شراکت داری ہے جو خلیج کے غیر محفوظ ماحول میں اس کی ڈیٹرینٹ پوزیشن کو مضبوط بناتی ہے۔

یہ علامتی طور پر بھی نہایت طاقتور ہے یعنی دو بڑے مسلم ممالک کا یہ عزم کہ وہ کسی بھی بیرونی جارحیت کے خلاف ایک دوسرے کا دفاع کریں گے۔

پاکستان کی انڈیا کے ساتھ حالیہ جنگ میں شاندار عسکری کارکردگی نے دنیا کو دکھا دیا ہے کہ اس کی مسلح افواج ہر محاذ پر بے مثال ہیں۔ یہی جنگی ساکھ اس دفاعی معاہدے کو مزید وزن اور مطلب دیتی ہے۔

اس معاہدے کو مسلم دنیا کے اتحاد کے تسلسل میں بھی دیکھنا چاہیے۔

1974 کا لاہور اسلامی سربراہی اجلاس، جس کی میزبانی وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے کی تھی، مسلم اتحاد کی فکری اور سیاسی بنیاد بنا۔

آج وہی جذبہ عملی شکل اختیار کر رہا ہے اور پاکستان سعودی عرب دفاعی معاہدہ اسی تسلسل کی جھلک ہے، جس میں امت مسلمہ کے اجتماعی ردعمل کی خواہش نظر آتی ہے۔

سعودی ولی عہد اور وزیر اعظم شہزادہ محمد بن سلمان کا وژن کہ مملکت کی سلامتی، خودمختاری اور استحکام پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا اور پاکستان کی عسکری قیادت نے اس اہم لمحے کو ممکن بنایا۔

فیلڈ مارشل عاصم منیر کو اندرون اور بیرون ملک ان کی قائدانہ صلاحیتوں پر سراہا جا رہا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مشکل سٹریٹجک حالات میں فیلڈ مارشل کی متوازن اور واضح حکمت عملی نے پاکستان کی عسکری پوزیشن کو مضبوط کیا ہے۔ پاکستان کی عسکری سفارت کاری میں ان کی قیادت نے یقینی طور پر اسلام آباد کو ریاض کے ساتھ اس معاہدے پر اعتماد سے آگے بڑھنے کا موقع دیا ہے۔

یہ معاہدہ ایک بڑے مسلم دفاعی ڈھانچے کی بھی بنیاد فراہم کر سکتا ہے۔ ایران نے اس معاہدے کو خوش آمدید کہتے ہوئے اسے ایک علاقائی سلامتی نظام کی طرف پہلا قدم قرار دیا ہے، جو غیر ملکی مداخلت سے پاک ہو۔

اگر اس تعاون کو سنبھال کر آگے بڑھایا گیا تو یہ دیگر خلیجی ریاستوں، ترکی اور مسلم دنیا کے دیگر ممالک کو بھی اجتماعی سلامتی کے فریم ورک میں لا سکتا ہے۔

آگے بڑھتے ہوئے، پاکستان کو اس معاہدے پر عمل درآمد میں وضاحت اور احتیاط برتنی ہوگی۔

مشترکہ تربیت، انٹیلی جنس شیئرنگ، بحری تعاون اور انسداد دہشت گردی مشقیں فطری شعبے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں ٹیکنالوجی کے تبادلے، دفاعی صنعت میں شراکت اور پاکستان کے عسکری پیداواری ڈھانچے میں سرمایہ کاری جیسے شعبوں پر بھی توجہ دینی ہوگی۔

پاکستان کے لیے یہ موقع ہے کہ وہ مسلم دنیا میں ایک ذمہ دار، قابل اعتماد اور خودمختار شراکت دار کے طور پر اپنے کردار کو مزید مستحکم کرے۔ یہ ہماری صلاحیت کا امتحان بھی ہے کہ ہم یکجہتی کو حکمت کے ساتھ متوازن کریں۔

پاک۔سعودی دفاعی معاہدہ مسلم دنیا میں ایک نئے دور کی شروعات کر سکتا ہے جس میں پاکستان خطے کے امن اور خوشحالی کا مرکز بنے۔ سعودی عرب کے ساتھ ہماری دوستی ناقابل تردید ہے۔

کالم کی مصنفہ پاکستان کی قومی اسمبلی کی رکن اور تھنک ٹینک ’سینٹر فار پاکستان اینڈ گلف اسٹڈیز‘ کی سرپرست اعلیٰ ہیں۔ وہ ایک نمایاں سیاست دان، ماہر تعلیم اور علاقائی و عالمی دفاعی و سٹریٹجک امور کی ماہر ہیں۔ وہ 2012 سے 2018 تک پاکستان کی سینیٹ کی منتخب رکن بھی رہ چکی ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر