سعودی عرب پاکستان سٹریٹیجک میوچوئل ڈیفنس ایگریمنٹ بلاشبہ مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کے تیزی سے بدلتے ہوئے جغرافیائی و سیاسی ماحول میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
یہ معاہدہ طویل عرصے سے زیرِ غور تھا اور اس پر دستخط ہونے سے نہ صرف دونوں ممالک کے دیرینہ سٹریٹیجک، معاشی اور برادرانہ تعلقات کو باضابطہ شکل ملی ہے بلکہ انہیں ادارہ جاتی بنیاد بھی فراہم ہوئی ہے۔
سٹریٹیجک میوچوئل ڈیفنس ایگریمنٹ کے دستخط پر سلامتی کے مبصرین اور سفارت کاروں کی جانب سے دو مختلف ردعمل سامنے آئے ہیں: خوشی و جوش اور تشویش۔
کئی دیگر ابھی تک اس کے دور رس اثرات پر غور کر رہے ہیں اور مزید تفصیلات سامنے آنے کا انتظار کرتے ہوئے خاموش ہیں۔
اگرچہ 18 ستمبر کو دفاعی معاہدے پر دستخط کے اعلان کے لیے ایک تفصیلی مشترکہ بیان جاری کیا گیا تھا، لیکن اصل معاہدہ عوام کے سامنے نہیں لایا گیا۔
ایس ایم ڈی اے کے وقت کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ یہ مئی میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان تنازعے اور مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیلی جارحیت کے پس منظر میں سامنے آیا ہے، جہاں اسرائیل اب تک اپنی سلامتی کے مفادات کے تحفظ کے نام پر مشرق وسطیٰ کی سات ریاستوں پر حملہ کر چکا ہے۔
یقیناً سٹریٹیجک میوچوئل ڈیفنس ایگریمنٹ میں انتہائی سخت زبان استعمال کی گئی ہے جو کہ نیٹو کے آرٹیکل پانچ سے مشابہ ہے، یعنی ایک ملک پر حملہ دوسرے ملک پر حملہ تصور ہوگا۔
بظاہر یہ ریاض اور اسلام آباد کو اجتماعی سلامتی کے فریم ورک میں باندھتا دکھائی دیتا ہے۔ تاہم، اس نوعیت کے معاہدوں کی باریک تفصیلات انتہائی اہمیت رکھتی ہیں اور ایسے جرات مندا نہ بیانات سیاسی سیاق و سباق کے تابع ہوتے ہیں۔
لہٰذا، ایس ڈی ایم اے جیسے معاہدوں کو ان کے غیراعلانیہ انتباہات کے بغیر پڑھنا غلط تشریحات کا باعث بن سکتا ہے۔
ایس ڈی ایم اے کی زبان کو جان بوجھ کر مبہم رکھا گیا ہے کیونکہ روک تھام کی اصل طاقت ابہام میں ہے۔
ایس ایم ڈی اے پر دستخط کرنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ مستقبل میں کسی پاکستان انڈیا تنازعے کی صورت میں سعودی افواج پاکستانی دستوں کے ساتھ مل کر لڑیں گی اور نہ ہی اس کا یہ مطلب ہے کہ پاکستان خودبخود کسی ممکنہ سعودی تنازعے میں، خواہ وہ ایران کے ساتھ ہو یا اسرائیل کے ساتھ، شامل ہو جائے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سعودی عرب کے پاس جدید ترین ہتھیاروں کے نظام اور دفاعی ساز و سامان موجود ہیں، جن میں سے 70 فیصد امریکہ سے خریدا جاتا ہے۔
اس کے برعکس پاکستان اپنی دفاعی ضروریات پوری کرنے کے لیے بڑی حد تک چین پر انحصار کرتا ہے۔
لہٰذا ایس ایم ڈی اے کا تعلق عسکری ساز و سامان سے زیادہ انسانی وسائل سے ہے۔
اس معاہدے کے نتیجے میں پاکستان کا تربیتی، مشاورتی اور سلامتی کا کردار خلیجی مملکت میں مزید بڑھ جائے گا۔ پہلے ہی 1,500 سے 2,000 پاکستانی فوجی سعودی عرب میں تعینات ہیں۔
آنے والے مہینوں میں اس تعداد میں اضافے کا امکان ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ مشترکہ تربیتی پروگرامز، فوجی مشقیں اور پاکستانی فوجی اکیڈمیوں میں سعودی کیڈٹس کی تعداد بھی بڑھے گی۔
اس کے بدلے میں، امکان ہے کہ ریاض پاکستان کے لیے اپنی معاشی فیاضی میں اضافہ کرے گا، جس میں مالی بیل آؤٹس، موجودہ تین ارب ڈالر کے قرضوں کی مدت میں توسیع اور کثیرالجہتی فورمز پر سفارتی حمایت شامل ہوگی۔
اس میں تیل کی ادائیگی مؤخر کرنے کی سہولت کے تحت فراہمی کے حجم میں اضافہ بھی شامل ہو سکتا ہے تاکہ پاکستان کو توانائی کے بل میں مدد مل سکے۔
اس طرح کا انتظام پاکستان کے زرمبادلہ کے بحران کا دباؤ کم کرے گا اور اسے میکرو اکنامک استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے درکار مالی گنجائش فراہم کرے گا۔
شدید مالی مشکلات کے شکار پاکستان کے لیے سعودی مالی ضمانتیں انڈیا کے ساتھ روایتی تنازع کو برداشت کرنے کے خدشے کو بھی کم کریں گی۔
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے وژن 2030 کے تحت ریاض نے اپنی معیشت کو متنوع بنانے اور تیل کی آمدن پر انحصار کم کرنے کے لیے انڈیا میں بھاری سرمایہ کاری کی ہے۔
اگرچہ پاکستان انڈیا تنازعے میں کسی تیسرے فریق کی ثالثی کا سخت مخالف ہے اور اسے سختی سے دو طرفہ رکھنا چاہتا ہے، لیکن اس مساوات میں سعودی عنصر کی باضابطہ شمولیت سے خطے پر ایک مثبت اثر اور استحکام پیدا ہوگا۔
جنوبی ایشیا کی سلامتی کے ڈھانچے میں سعودی عرب کی شمولیت اپنے منفرد مقام کے ساتھ آتی ہے کیونکہ اس کے انڈیا اور پاکستان دونوں سے اچھے تعلقات ہیں۔
2019 کے پلوامہ بالاکوٹ تنازعے کے بعد سے سعودی عرب متحدہ عرب امارات کے ساتھ مل کر جنوبی ایشیا کے ان دونوں حریفوں کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے میں ایک اہم کھلاڑی کے طور پر ابھرا ہے۔
ریاض نے فائر بندی معاہدہ کرانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ حالیہ پاکستان انڈیا عسکری بحران میں بھی سعودی عرب نے کشیدگی کم کرنے کے لیے سرگرم سفارتی کردار ادا کیا تھا۔
سعودی عرب کے طویل المدتی معاشی مفادات انڈیا کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، جبکہ اس کے دیرینہ سلامتی سے متعلق خدشات پاکستان کے ساتھ گہرے طور پر منسلک ہیں۔
ایس ایم ڈی اے کے ذریعے پاکستان-انڈیا سلامتی کے توازن میں سعودی موجودگی پاکستان کے خلاف انڈیا کی یکطرفہ اور بلااشتعال جارحیت پر ممکنہ طور پر ایک قدغن کے طور پر کام کرے گی۔
یہ دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان ایک نہایت ضروری بفر زون پیدا کرے گی۔
ایک طویل پاکستان-انڈیا عسکری بحران اس کے معاشی اور سلامتی کے مفادات کو خطرے میں ڈال دے گا لہٰذا، سعودی عرب اپنی پوری صلاحیت کے ساتھ پاکستان-انڈیا تنازع کو ٹالنے کی کوشش کرے گا۔
پہلگام حملے کے بعد دہلی نے اسلام آباد پر بغیر کسی ثبوت کے الزام عائد کیا اور عبادت گاہوں اور فضائی اڈوں کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں چار روزہ تنازع سامنے آیا جس میں فضائی، میزائل اور ڈرون حملے شامل تھے۔
حتیٰ کہ پاکستان کی غیرجانبدار، بین الاقوامی تحقیقات کی پیشکش کو بھی نظرانداز کر دیا گیا۔ اگرچہ انڈیا کا دعویٰ ہے کہ آپریشن سندور ابھی مکمل نہیں ہوا، لیکن ایس ایم ڈی اے پر دستخط کے بعد اسے پاکستان کے خلاف اپنے موجودہ جارحانہ رویے پر نظرثانی کرنا ہوگی۔
ایس ایم ڈی اے کا ایک اور نہایت اہم پہلو جنوبی ایشیا میں طاقت کے توازن کے تناظر میں7-10 مئی کے پاکستان-انڈیا عسکری تنازعے میں اسرائیلی ٹیکنیکل ایڈوائزرز کی موجودگی ہاروپ خودکش ڈرونز کا استعمال ہے۔
حالیہ ہفتوں میں اسرائیلی وزیرِاعظم بن یامین نتن یاہو نے قطر میں اپنی بلااشتعال جارحیت کو درست ثابت کرنے کے لیے پاکستان کا بار بار حوالہ دیا اور اس کا موازنہ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کے لیے امریکی سپیشل فورسز کے آپریشن سے کیا۔
سعودی عرب کے ساتھ اس سیکیورٹی معاہدے کو باضابطہ شکل دے کر پاکستان نے سٹریٹیجک طور پر اسرائیل کو یہ پیغام دے دیا ہے کہ اگر اس نے جنوبی ایشیا میں کسی بھی قسم کی شرانگیزی یا غلط اندازہ لگانے کی کوشش کی تو اس کا نتیجہ مشرقِ وسطیٰ میں بھرپور جواب کی صورت میں نکل سکتا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ سعودی عرب-پاکستان سکیورٹی معاہدہ دونوں ممالک کے یکساں سلامتی مفادات اور خدشات کا نتیجہ ہے ایسے وقت میں جب امریکہ کی قیادت میں قائم عالمی نظام زوال پذیر ہے اور پرانے سکیورٹی معاہدے قابلِ اعتماد نہیں رہے۔
مشرقِ وسطیٰ میں نئی اتحادیوں اور دشمنیوں کے ابھرنے کے تناظر میں ایسے معاہدے ایک غیر یقینی اور غیر مستحکم ماحول میں سمت متعین کرنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔
قریب مستقبل میں پاکستان اور خلیجی ممالک کے درمیان مزید ایسے معاہدے ہونا کسی حیرت کی بات نہیں ہوگی۔
مصنف ایس راجاراتنام سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز، سنگاپور میں سینئر ایسوسی ایٹ فیلو ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔