انٹرنیشنل پریس انسٹی ٹیوٹ اور انٹرنیشنل میڈیا سپورٹ آرگنائزیشن نے غزہ میں اسرائیلی حملے میں جان سے جانے والی انڈپینڈنٹ عربیہ کی نامہ نگار مریم ابو دقہ کو ’ورلڈ پریس فریڈم ہیرو‘ کے ایوارڈ سے نوازنے کا اعلان کیا ہے۔
انڈپینڈنٹ عربیہ اور ایسوسی ایٹڈ پریس سے منسلک 33 سالہ مریم ابو دقہ اس سال 26 اگست کو جنوبی غزہ میں النصر ہسپتال پر یکے بعد دیگرے دو اسرائیلی حملوں میں پانچ دیگر صحافیوں سمیت جان سے چلی گئی تھیں۔
غزہ کی وزارت صحت کے ایک بیان میں بتایا گیا تھا کہ مریم کے علاوہ ان حملوں کے نتیجے میں مارے جانے والے دوسرے صحافیوں میں الجزیرہ ٹی وی کے کیمرہ مین محمد سلام، روئٹرز کے کیمرہ مین حسام المصری، فری لانس صحافی معاذ ابو طہٰ اور برطانوی میڈیا ادارہ مڈل ایسٹ آئی کے احمد ابو عزیز بھی شامل تھے۔
مریم ابو دقہ کو یہ ایوارڈ موت کے بعد میڈیا کی آزادی کے دفاع میں ان کی ہمت اور ثابت قدمی کے اعزاز میں دیا گیا ہے۔
ورلڈ پریس فریڈم ہیرو ایوارڈ ہر سال انٹرنیشنل پریس انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے انٹرنیشنل میڈیا سپورٹ کے اشتراک سے ان صحافیوں کو دیا جاتا ہے جنہوں نے آزادی صحافت کے لیے غیر متزلزل عزم کا مظاہرہ کیا ہے۔
صحافیوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والی فرانسیسی تنظیم رپورٹرز سانز فرنٹیئرز (آر ایس ایف) کے مطابق غزہ پر اکتوبر 2023 میں شروع ہونے والے حملو میں مجموعی طور پر 220 صحافی اور میڈیا ورکرز جان سے جا چکے ہیں، جبکہ الجزیرہ ٹی وی یہ تعداد 278 بتاتا ہے۔
انٹرنیشنل پریس انسٹی ٹیوٹ اور انٹرنیشنل میڈیا سپورٹ آرگنائزیشن نے ایک بیان میں بتایا کہ ’فلسطینی صحافی ابو دقہ کو جارجیا، امریکہ، پیرو، ہانگ کانگ، یوکرین اور ایتھوپیا کے چھ دیگر صحافیوں کے ساتھ سالانہ ایوارڈ جیتنے کے لیے منتخب کیا گیا، جنہوں نے قید، جبر اور اپنی آواز کو خاموش کرنے کی کوششوں کے باوجود اپنا صحافتی کام جاری رکھا۔‘
ایوارڈ کے بیان میں فوٹوگرافر مریم ابو دقہ کی موت پر سوگ کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ ’انہوں نے غزہ میں جاری مظالم کو دستاویزی شکل دینے کے لیے بار بار اپنی جان کو خطرے میں ڈالا۔
’ان کا قتل، جس کے لیے کسی کو جوابدہ نہیں ٹھہرایا گیا، غزہ کے صحافیوں کو درپیش بڑھتے ہوئے خطرناک حالات کی عکاسی کرتا ہے، جنہیں ٹارگٹڈ حملوں، نقل مکانی اور بھوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘
دی انڈپینڈنٹ عربیہ کے چیف ایڈیٹر عدوان الاحمری نے بین الاقوامی پریس انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے مریم ابو دقہ کو دیے جانے والے ایوارڈ پر تشکر کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’وہ اپنی ہمت، لگن اور اپنے صحافتی مشن کے لیے لگن کے لیے جانی جاتی تھیں۔ انہوں نے دنیا کو یہ پیغام پہنچایا کہ ایک دیانت دار شہری اور انتہائی مشکل حالات اور خطرناک ماحول میں انسانوں کی خدمت کر رہے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مریم ابو دقہ ’ایک آزاد صحافی کی مثال تھیں، جنہوں نے سچائی کو ایک امانت اور پیغام کے طور پر قبول کیا اور اس عظیم پیشے کے لیے اپنی جان کی قیمت ادا کی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ مریم ابو دقہ کا پیغام ’ہمارے کام میں زندہ رہے گا اور ہم چیلنجوں سے قطع نظر سچائی اور آزادی صحافت کا دفاع کرتے رہیں گے۔‘
ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایگزیکٹو ایڈیٹر جولی پیس نے کہا: ’مریم نے بے مثال چیلنجوں کا سامنا کرنے والے فلسطینیوں کی زندگیوں کو دستاویزی شکل دینے والی طاقتور تصاویر اور ویڈیوز تیار کیں، جن میں اپنے گھروں سے بے گھر ہونے والے خاندان اور زخمیوں اور غذائی قلت کے شکار بچوں کا علاج کرنے والے ڈاکٹر شامل ہیں۔
’ہمیں اس نقصان پر شدید دکھ ہے اور ہم اس جنگ کی کوریج کرنے والے صحافیوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے جوابات کی تلاش جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘
مریم ابو دقہ کے علاوہ فہرست میں یوکرین کی صحافی وکٹوریجا روشچینا بھی شامل ہیں، جنہیں روسی حکام نے گرفتار کیا تھا اور 19 ستمبر 2024 کو وہ حراست میں انتقال کر گئی تھیں۔
دونوں ایوارڈ کے منتظمین نے تنازعات والے علاقوں میں کام کرنے والے صحافیوں کے تحفظ کو بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا۔
2025 کا ایوارڈ حاصل کرنے والوں میں جارجیا سے مزیا اماگلوبیلی، امریکہ سے مارٹن بیرن، پیرو سے گوسٹاوو گوریٹی، ہانگ کانگ سے جمی لائی اور ایتھوپیا سے تسفالیم وولڈز بھی شامل ہیں۔