غزہ پر جارحیت کو دو سال ہو چکے ہیں، ان دو سالوں میں اسرائیل کو معاشی طور پر کتنا نقصان ہوا؟ اس حوالے سے مصدقہ معلومات بہت کم ہیں۔
امریکہ کی براؤن یونیورسٹی نے حالیہ دنوں میں ایک رپورٹ جاری کی، جس میں بتایا گیا کہ امریکہ نے اس جارحیت میں اسرائیل کی 33.77 ارب ڈالر سے زیادہ کی مدد کی۔
اس میں21.7 ارب ڈالر کی فوجی مدد کے ساتھ 12.07ارب ڈالر لاگت کی وہ فوجی کارروائیاں بھی شامل ہیں جو امریکہ نے یمن اور ایران کے خلاف کیں۔
اس جارحیت میں اسرائیل کا اپنا کتنا پیسہ خرچ ہوا؟ اس بارے میں اسرائیل کے وزیر خزانہ بیزلیل سموٹریچ نے گذشتہ ہفتے بیان دیا کہ غزہ پر جاری کارروائی کے نتیجے میں اب تک اسرائیل کے 300 ارب شیکل یعنی تقریباً 88 ارب ڈالر کےاخراجات ہو چکے ہیں۔
امریکی تھنک ٹینک رینڈ کارپوریشن کی ایک رپورٹ کے مطابق اگر اسرائیل کو فلسطینی مزاحمت کا سامنا اگلی دہائی میں بھی جاری رہا تو اس سے اسرائیل کو اگلے 10 سالوں میں 400 ارب ڈالر کا نقصان ہو سکتا ہے۔
امریکہ نے اسرائیل کو کس مد میں کتنا پیسہ دیا؟
فارن ملٹری فنانسنگ امریکہ کا وہ پروگرام ہے جس کے تحت وہ اپنے حلیف ملکوں کی فوجی مدد کرتا ہے۔ اس کے تحت امریکہ نے سات اکتوبر، 2023 سے لے کر 24 ستمبر، 2025 تک اسرائیل کو جو فوجی مدد فراہم کی وہ 21.7 ارب ڈالر کی ہے۔
کیا اسرائیل نے یہ قیمت ادا کی یا پھر امریکہ نے مفت امداد فراہم کی؟ عمومی معنوں میں سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اس کے لیے ’ہتھیاروں کی ترسیل‘ کی اصطلاح استعمال کرتا ہے جو ہتھیاروں کی فروخت بھی ہو سکتی ہے۔
تاہم براؤن یونیورسٹی کے مطابق اسرائیل کے معاملے میں اسے امریکی امداد ہی سمجھا جاتا ہے۔ اسرائیل کے تمام جنگی جہاز امریکی ساختہ ہیں جن میں استعمال ہونے والے بم بھی امریکہ سے آتے ہیں۔
ان کی وجہ سے دو سالوں میں غزہ میں 66,000 ہزار لوگ جان سے جا چکے ہیں، جن میں سے 80 فیصد عام شہری ہیں۔
واضح رہے کہ یہ امریکہ کی جانب سے وہ فوجی امداد ہے جو غزہ جارحیت کے دو سالوں کے اندر دی گئی جبکہ اسرائیل کو امریکی ہتھیاروں کی وہ فروخت جو پہلے سے جاری ہیں، وہ بالکل الگ معاملہ ہے۔
سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے بیورو آف پولیٹیکل ملٹری افیئرز نے 25 اپریل، 2025 کی اپنی رپورٹ میں بتایا کہ غزہ جارحیت سے پہلے بھی امریکہ، اسرائیل کے ساتھ 751 مختلف قسم کے ہتھیاروں کی فروخت کا عمل جاری رکھے ہوئے تھا، جس کی مجموعی مالیت39.2 ارب ڈالر ہے۔
ٹرمپ کے برسرِاقتدار آنے کے بعد سے اسرائیل کو ان بھاری بموں کی ترسیل بھی شروع کر دی گئی جن پر اس سے پہلے پابندی عائد تھی، جن میں مارک 84 اور BLU-109 2000 پاؤنڈ کے وزنی بم بھی شامل ہیں، جن کے ذریعے اسرائیل غزہ کی بلند رہائشی عمارتوں کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کر رہا ہے۔
تاہم اسرائیل کو تباہ کن ہتھیاروں کی فروخت اور ان کے نتیجے میں ہونے والے جانی نقصان پر امریکی کانگریس میں مخالفت بڑھ رہی ہے اور برنی سینڈرز جیسے سینیٹرز کا مؤقف ہے کہ امریکہ کی اسرائیل نواز پالیسیاں غیر اخلاقی، غیر قانونی اور تباہ کن ہیں۔
اسرائیلی معیشت پر جنگ کے اثرات
عرب سینٹر فار ریسرچ اینڈ پالیسی سٹدیز، جو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں قائم ایک تھنک ٹینک ہے، سے منسلک واشنگٹن کے عرب سینٹر نے ایک مفصل رپورٹ جاری کی، جس میں بتایا گیا کہ اسرائیلی معیشت اس جارحیت سے پہلے کہاں کھڑی تھی اور اب کہاں کھڑی ہے۔
اسرائیل کا، جس کی آبادی ایک کروڑ کے قریب ہے، سالانہ بجٹ تقریباً 200 ارب ڈالرکے لگ بھگ ہے، جس میں گذشتہ سال کے 46.5 ارب ڈالر کے فوجی اخراجات کو 1967 کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد سب سے زیادہ اضافہ قرار دیا گیا ہے۔
اسرائیل نے جارحیت کے شروع ہوتے ہی تین لاکھ ریزرو فوجیوں کو طلب کیا تھا، جن کا روز کا اضافی خرچہ سات کروڑ امریکی ڈالر ہے۔
یروشلم پوسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق اس سال اگست میں بینک آف اسرائیل کے دو سابق گورنروں جیکب فرینکل اور کارنت فلگ نے خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ جنگی اخراجات قابو سے باہر ہو رہے ہیں، جس سے مالیاتی بحران، بیرونی قرضوں میں اضافہ اور اندرونی سیاسی عدم استحکام کا سامنا ہو سکتا ہے۔
اسرائیل کی مجموعی قومی پیداوار تین فیصد سے کم ہو کر 1.7 فیصد پر آ چکی ہے جبکہ بیرونی قرضے جو اس جارحیت سے پہلے جی ڈی پی کا 60 فیصد تھے، اب 71 فیصد پر آ چکے ہیں جو اس مالی سال کے اختتام پر بڑھ کر 76 فیصد ہو جائیں گے۔
بجٹ خسارہ بڑھنے سے مہنگائی میں ہوش ربا اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ جولائی 2024 سے جارحیت کی وجہ سے 46,000 کاروبار بند ہو چکے ہیں۔
بینک آف اسرائیل کے مطابق اس جارحیت کی وجہ سے اسرائیلی معیشت کو 600 ملین ڈالر فی ہفتہ نقصان ہو رہا ہے۔
اسرائیل کی سفارتی تنہائی
غزہ کی جارحیت سے پہلے اقوامِ متحدہ کے رکن 193 ممالک میں سے 140 ممالک نے فلسطین کو بطور ایک آزاد ریاست کے تسلیم کر رکھا تھا جبکہ اب یہ تعداد بڑھ کر 157 ہو چکی ہے جو عالمی برادری کا 81 فیصد بنتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان دو سالوں کے دوران فلسطین کو تسلیم کرنے والے ممالک میں فرانس، لکسمبرگ،مالٹا، مناکو، بیلجیئم، انڈورا، برطانیہ، آسٹریلیا، کنیڈا، پرتگال، میکسیکو، آرمینیا، سلوینیا، آئرلینڈ، ناروے اور سپین جیسے اہم ممالک شامل ہیں۔
واضح رہے کہ 18 اپریل، 2024 کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں فلسطین کو مکمل رکنیت دینے کی قرارداد کو امریکہ نے ویٹو کر دیا تھا۔
برطانیہ اور سوئٹزر لینڈ نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا تھا جبکہ تمام مستقل اور غیر مستقل اراکین نے قرارداد کی حمایت کی تھی۔
اسرائیل کو عالمی سطح پر فلسطینیوں کی نسل کشی اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کے الزامات کاسامنا ہے۔
یورپی یونین، جو اسرائیل کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے، وہ اسرائیل کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدے کی کچھ شقیں ختم کرنے کی بات کر رہا ہے۔
دنیا میں خود مختار فنڈنگ کے سب سے بڑے ادارے ناروے ساورن فنڈ نے، جس کی مالیت دو کھرب ڈالرہے، اسرائیل میں اپنی سرمایہ کاری کو محدود کرنے کا اعلان کیا ہے۔
فرانس، اٹلی، نیدرلینڈ، سپین اور برطانیہ سمیت کئی ممالک نے اسرائیل کو ہتھیاروں کی فروخت پر جزوی یا مکمل پابندی لگا دی ہے۔ ہالی وڈ سے تعلق رکھنے والے ہزاروں فلم سازوں اور اداکاروں نے اسرائیلی فلمی صنعت سے وابستہ اداروں کے ساتھ کام کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
اسرائیل کو یورپی فٹ بال مقابلوں سے اخراج کا خطرہ بھی درپیش ہے۔
اسرائیل کی عالمی تنہائی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ گذشتہ ہفتے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں غزہ میں فوری فائر بندی کی قرارداد پیش کی گئی تو اس کی حمایت میں 149 ممالک نے ووٹ دیا، 19 ممالک نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا جبکہ اسرائیل کی حمایت میں صرف 10 ممالک نے ووٹ دیا۔