کینیڈین فوٹو جرنلسٹ ویلیری زنک نے برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز نیوز ایجنسی سے منگل کو یہ کہہ کر استعفیٰ دے دیا کہ یہ ادارہ اسرائیل کے پروپیگنڈے کو تقویت دے کر غزہ میں صحافیوں کے قتل میں براہ راست شریک ہے۔
روئٹرز کے لیےآٹھ سال تک خدمات انجام دینے کے بعد ویلیری زنک، جن کی تصاویر نیویارک ٹائمز، الجزیرہ اور دنیا بھر کے دیگر میڈیا اداروں میں شائع ہوتی رہی ہیں، نے فیس بک پر جاری اپنے بیان میں لکھا: ’اب میرے لیے روئٹرز کے ساتھ تعلق برقرار رکھنا ناممکن ہو چکا ہے کیونکہ اس نے غزہ میں 245 صحافیوں کے منظم قتل کو جائز اور ممکن بنانے میں کردار ادا کیا ہے۔
’میں اپنے فلسطینی ساتھیوں کی کم از کم اتنی تو مقروض ہوں یا شاید اس سے بھی زیادہ۔‘
انہوں نے بتایا کہ 10 اگست کو جب اسرائیلی افواج نے غزہ سٹی میں الجزیرہ کے صحافی انس الشریف اور ان کی پوری ٹیم کو قتل کیا تو روئٹرز نے اسرائیل کے اس بے بنیاد دعوے کو شائع کیا کہ انس الشریف حماس کے رکن تھے۔
زنک کے مطابق یہ اسرائیل کے ان بےشمار جھوٹوں میں سے ایک تھا، جنہیں مغربی میڈیا ادارے دہراتے اور درست ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ویلیری زنک نے واضح کیا کہ انس الشریف کا کام روئٹرز کے لیے پلٹزر پرائز جیت چکا تھا لیکن اس کے باوجود روئٹرز نے اس وقت بھی ان کا دفاع نہیں کیا، جب اسرائیلی فوج نے انہیں ’ہٹ لسٹ‘ میں شامل کیا اور نہ ہی اس وقت جب انہوں نے عالمی میڈیا سے تحفظ کی اپیل کی۔
ویلیری زنک نے مزید لکھا: ’روئٹرز کی یہ آمادگی کہ وہ اسرائیلی پروپیگنڈے کو آگے بڑھائے، اپنے ہی رپورٹرز کو نسل کشی سے نہیں بچا سکی۔
’آج النصر ہسپتال پر حملے میں مزید پانچ صحافی مارے گئے، جن میں روئٹرز کے کیمرہ مین حسام المصری بھی شامل تھے۔ یہ وہی ’ڈبل ٹیپ‘ حملہ تھا جس میں پہلے سکول یا ہسپتال پر بمباری کی جاتی ہے، پھر امدادی کارکنوں اور صحافیوں کے پہنچنے کے بعد دوبارہ حملہ ہوتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق مذکورہ حملے میں انڈپینڈنٹ عربیہ کے لیے کام کرنے والی فوٹو جرنلسٹ مریم ابو دقہ کا قتل بھی ہوا۔
زنک کا کہنا تھا کہ مغربی میڈیا نے اسرائیل کے الزامات کی سچائی جانچنے کی بنیادی ذمہ داری بھی پوری نہیں کی اور اسی غفلت نے اتنے بڑے پیمانے پر صحافیوں کے قتل کو ممکن بنایا۔
ان کے بقول: ’دو سال میں ایک چھوٹے سے خطے میں اتنے صحافی مارے گئے جتنے پہلی اور دوسری عالمی جنگ، کوریا، ویتنام، افغانستان، یوگوسلاویہ اور یوکرین کی جنگوں میں بھی نہیں مارے گئے۔‘
آخر میں زنک نے کہا: ’میں نے آٹھ سال تک روئٹرز کے لیے کام کیا لیکن اب اس پریس پاس کو پہننا میرے لیے شرمندگی اور افسوس کے سوا کچھ نہیں۔ میں نہیں جانتی کہ غزہ کے بہادر صحافیوں کی قربانیوں کا حق کیسے ادا کیا جائے، لیکن آئندہ میری ساری توجہ اسی طرف رہے گی۔‘
تاحال روئٹرز کی جانب سے ویلیری زنک کی جانب سے عائد کردہ الزامات کا جواب نہیں دیا گیا۔