اس سے زیادہ جھنجھلانے والی کوئی بات نہیں ہو سکتی کہ ایک چیز جو پہلے مفت تھی، اب اس کے پیسے دینے پڑیں۔
سنیپ چیٹ کے صارفین اس خبر پر برہم ہیں کہ جلد ہی اگر ان کی پرانی ویڈیوز اور تصاویر پانچ جی بی سے بڑھ جائیں تو انہیں ذخیرہ کرنے کے لیے رقم دینی پڑے گی۔ سنیپ چیٹ نے کہا کہ اس کی ’میموریز‘ فیچر میں اب دس کھرب اجزا سے زائد مواد محفوظ ہے اور اسے محفوظ رکھنا سستا کام نہیں، لیکن کمپنی پر بڑے پیمانے پر کارپوریٹ لالچ کے الزامات لگ رہے ہیں۔
صارفین کی اس خفگی کی رومن دور سے آج تک سینکڑوں مثالیں موجود ہیں۔ روم میں پانی، حمام اور یہاں تک کہ گندم بھی مفت تھی۔ جب بھی ان بنیادی سہولتوں، خصوصاً مفت گندم کی قیمت مقرر کرنے کی بات ہوتی تو فسادات پھوٹ پڑتے۔
وِکٹورین انگلینڈ میں جب 1851 کی عظیم نمائش میں قیمت والے بیت الخلا پیش کیے گئے تو ہنگامہ مچ گیا۔ ایک پینی کے عوض صاف بیت الخلا، تولیہ اور جوتا پالش ملتی تھی۔ مگر ایک پینی غریبوں کے لیے پورے دن کے کھانے کے برابر تھی۔
ہمارے دور میں انٹرنیٹ ابتدا میں پوری طرح مفت تھا اور آج بھی اس کا بڑا حصہ ایسا ہی ہے۔ 2008 تک ’دی اکنامکس آف فری‘ کا تصور کچھ لوگوں کے نزدیک مستقبل کی راہ سمجھا جا رہا تھا۔
لیکن اسی وقت دوسری بااثر آوازیں، جن میں ٹیک کے ماہرین میلکم گلیڈویل اور کلے شرکی، اور فنانشل ٹائمز اور وال سٹریٹ جرنل کے اداریہ نویس شامل تھے، یہ دلیل دے رہے تھے کہ ’مفت‘ پائیدار معاشی اصول نہیں اور کاروباروں کو بالآخر قیمت لینی پڑتی ہے۔
شرکی کو مفت ماڈل پسند تھا مگر وہ مانتے تھے کہ یہ صرف اس وقت تک چلتا ہے جب تک ’سبسڈی ختم نہیں ہو جاتی۔‘ یعنی اشتہارات، وینچر کیپیٹل یا محض سرمایہ کاروں کا صبر۔ آپ اسے اس دن سے تشبیہ دے سکتے ہیں جب والدین آپ سے کہتے ہیں کہ اب جبکہ آپ طالب علم نہیں رہے اور نوکری کر رہے ہیں تو گھر میں رہنے کا تھوڑا سا کرایہ ادا کیا کریں۔
یقیناً آن لائن خدمات پیسے کمانے کا ایک خاموش طریقہ بھی ہے۔ جب آپ دیکھتے ہیں کہ گوگل ہمیں بظاہر مفت میں کتنی چیزیں دیتا ہے، سرچ سے لے کر میپس، ترجمے، ای میل اور اے آئی تک، تو یہ تقریباً معجزہ لگتا ہے۔
مگر اصل میں ایسا نہیں۔ سمجھ دار ٹیک تجزیہ کار 1999 سے مختلف انداز میں کہہ رہے ہیں کہ اگر آپ کسی چیز کے لیے ادائیگی نہیں کر رہے تو آپ گاہک نہیں بلکہ وہ پروڈکٹ ہیں جسے بیچا جا رہا ہے۔ یعنی آپ کا ڈیٹا، آپ کی تفصیلات، آپ کی لوکیشن اور آپ کی صارفانہ ترجیحات حاصل کرنے کے لیے آپ کو چند مفت خدمات دینا پوری طرح فائدہ مند ہے۔
ٹیک میں ہم پہلے ہی دیکھ چکے ہیں کہ مفت چیزوں کی ایک بڑی تعداد اب قیمتاً مل رہی ہے، خبروں سے لے کر تفریح اور سپورٹس کوریج تک۔ ہم سے روز پوچھا جاتا ہے کہ کیا ہم اشتہارات ختم کرنے کے لیے پیسے دینا چاہتے ہیں اور اگر آپ محتاط نہ ہوں یا ایک ہی اذیت ناک اشتہار رات میں کئی بار دیکھنے کا حوصلہ نہ رکھتے ہوں تو آپ مہینے بھر میں سبسکرپشنز پر خاصی رقم خرچ کرتے پائے جائیں گے۔
سنیپ چیٹ نے سٹوریج پر قیمت لینے کے فیصلے کے بارے میں ایک خاصا تکلّف سے بھرا پی آر انداز کا بیان جاری کیا۔ کمپنی نے ایک بلاگ پوسٹ میں کہا کہ ’یہ تبدیلیاں ہمیں ہماری پوری کمیونٹی کے لیے میموریز کو مزید بہتر بنانے میں سرمایہ کاری جاری رکھنے کے قابل بنائیں گی۔‘
شاید زیادہ ہوشیاری یہ ہوتی کہ سنیپ چیٹ والے گریٹا تھنبرگ کے لہجے میں سرور فارموں پر اتنا مواد محفوظ رکھنے کے ماحولیاتی اخراجات کی تفصیل بتاتے، جو کم نہیں، خصوصاً جب صارفین اپنی پرانی کلپس کبھی کبھار ہی کھولتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جب آپ آن لائن دنیا کے نجی خیالات اور رازداری کے بگڑتے پہلوؤں کے ساتھ ساتھ وہاں پھیلے سپیم اور غلط معلومات کے سیلاب پر غور کرتے ہیں تو یہ تصور مشکل نہیں رہتا کہ ایک مکمل طور پر نجی، زیادہ منتخب اور غیر کرپٹ انٹرنیٹ ابھر آئے۔ بالکل اس طرح جیسے برطانیہ میں ایم 6 کی نجی، ہموار ٹول والی موٹر وے پر پیسے ادا کرنے والے برمنگھم کے گرد ٹریفک سے بچ نکلتے ہیں۔
’صاف‘ اور رازداری کی ضمانت دینے والا، پیسے لے کر کام کرنے والا کم از کم ایک سرچ انجن اور ایک براؤزر پہلے ہی موجود ہیں، اور یہ ناممکن نہیں کہ برطانوی نظامِ صحت کے ساتھ ساتھ موجود نجی صحت نظام کی طرح یہ چیز بھی تیزی سے عام ہو جائے۔
اس سرچ انجن کا نام ’کاگی‘ ہے، اس کا شریک براؤزر ’اورائن‘ ہے، اور ان کی قیمت ماہانہ 10 ڈالر ہے۔ یہ ٹریکنگ نہ کرنے اور ڈیٹا نہ بیچنے کا وعدہ کرتے ہیں۔ اس کے کیلی فورنیا میں مقیم بانی سربیا سے تعلق رکھنے والے انجینیئر ولادی میر پریلوواک کا کہنا ہے کہ گوگل ’لوگوں کی ذہانت کی توہین‘ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہم دو دہائیوں سے یہ نظر انداز کر رہے ہیں کہ گوگل صارفین کے لیے نہیں بلکہ مشتہرین کے لیے بہتر بنایا گیا ہے۔‘
کاگی ابھی بہت چھوٹا ہے، لگ بھگ 50 ہزار صارفین کے ساتھ۔ لیکن یہ منافعے میں چل رہا ہے اور اپنے چاہنے والوں میں بے حد مقبول ہے۔ بلکہ کچھ لوگ تو اسے بہترین سرچ انجن بھی قرار دیتے ہیں۔
پہلے استعمال میں یہ سمجھنا آسان نہیں ہوتا کہ کیوں کاگی کو بعض لوگوں نے بہترین سرچ انجن کہا ہے۔ اس کے فیچرز کم ہیں، مگر جب آپ اسے استعمال کرتے رہتے ہیں تو جلد ہی آپ سیدھے سادے، دیانت دار اور زیادہ معتبر نتائج پر بھروسہ کرنے لگتے ہیں۔
سنیپ چیٹ شاید اپنی نوعیت کی پہلی ایپ ہو جو روایت توڑ رہی ہے اور وہی کر رہی ہے جو کاروباروں کو بالآخر کرنا پڑتا ہے، لیکن توقع رکھیں کہ مزید کمپنیاں بھی اس راستے پر آئیں گی۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہوںا ضروری نہیں۔
© The Independent