نکولو میکیاولی پندرہویں صدی کا مفکر اور اہل سیاست سے وابستہ شخصیت تھا جس کی مشہور کتاب ’دی پرنس‘ سیاست کے کھلاڑیوں اور طالب علموں کے لیے آج بھی اہم سمجھی جاتی ہے۔
میکیاولی نے اپنی کتاب میں یوں تو سیاست کو اخلاقیات سے الگ قرار دیا ہے یعنی وہ سائنس جس کا نتیجہ سیاسی مفادات کی صورت ہی نکلتا ہو۔ مثلاً میکیاولی سیاست میں مستقل دوست اور مستقل دشمن کے حامی نہیں، جیسے کہ وہ اسی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’سیاست دان کو اپنے لیے بچھائے جال کو سمجھنے کے لیے لومڑی اور بھیڑیوں کو ڈرانے کے لیے شیر کی مانند ہونا چاہیے اور یہ بھی کہ جو لوگ صرف شیر بننے کی کوشش کرتے ہیں وہ بےوقوف ہوتے ہیں۔‘
میکیاولی یہ بھی لکھتے ہیں کہ ’چونکہ لوگ اپنے بارے میں خود فیصلے کرنا پسند کرتے ہیں لہذا ’شہزادے‘ کو وہ ہنر آنا چاہیے جس سے وہ معاملات کو خود کنٹرول کرے نہ کہ معاملات دوسروں کے کنٹرول میں ہوں۔‘
دی پرنس میں نیکولو میکیاولی لکھتے ہیں کہ ’آپ ایسے حکمران ہوں کہ لوگ آپ سے خوف زدہ ہوں یا ایسے کہ لوگ آپ سے محبت کریں، دراصل آپ کو ایسا حکمران بننا چاہیے کہ لوگ آپ سے خوفزدہ ہوں۔‘
شاید ہی کوئی سیاست دان ہو جو میکیاولی کے نظریات کی کھلے عام حمایت کرے مگر درحقیقت میکیاولی کی حقیقت پسندانہ بلکہ بعض اوقات سفاکانہ سیاست کو ہی اختیار کیا جاتا ہے۔
9 مئی مقدمات: عمر ایوب، زرتاج گل سمیت پی ٹی آئی کے 100 سے زائد رہنماؤں کو قید
— Independent Urdu (@indyurdu) July 31, 2025
مزید تفصیلات: https://t.co/Fb2MYI658z pic.twitter.com/yGLbUSJm4o
سیاست کے کھلاڑی اپنی پسند کے مطابق وقت اور حالات کا انتخاب کرتے ہوئے فیصلے کرتے ہیں اور اُن فیصلوں کو دلیل کے ساتھ منسلک کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ اسی لیے تو کہتے ہیں سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔
سیاست دان بند گلی سے راستہ نکالنے کا ہُنر بھی جانتے ہیں اور پتھر میں رِستے پانی سے سوراخ کرنے کا فن بھی ۔۔ لیکن اس سب کے لیے سیاست کا صحیح، بروقت اور برمحل استعمال بھی کوئی سیاست دانوں سے ہی سیکھے۔
محترمہ بےنظیر بھٹو اور نواز شریف نے جلاوطنی کی زندگی گزاری، عمران خان کے دور میں نواز شریف دوسری بار ڈیل کر کے بیرون ملک روانہ ہوئے۔
آصف علی زرداری نے 14 سال قید کاٹی بلکہ کل ہی ہمارے زمانہ طالب علمی کے ایک مشہور مقرر جو ایک ادارے کے سی ای او ہیں آنکھوں دیکھا حال بتا رہے تھے کہ ایک دفعہ تقریری مقابلے میں شرکت کے لیے جہاز پر سوار تھے تو دیکھا ایک قیدی جس کے ہاتھوں پیروں میں لوہے کی بیڑیاں تھیں جہاز پر لائے گئے۔ قریب گئے تو وہ آصف علی زرداری تھے جنہیں ایک مقدمے کے لیے پنڈی لایا جا رہا تھا۔ پھر وہی آصف علی زرداری ایوان صدر میں دو بار پدھارے۔
اب یہ نصیب ہے یا سیاست۔۔ مگر سیاست نے نصیب کے دروازے ضرور کھولے ہیں۔ برصغیر میں کئی ایک مثالیں دی جا سکتی ہیں مگر یہ تمہید لمبی ہو جائے گی۔ قصہ مختصر سیاست مکالمے اور مسلسل ’انگیجمنٹ‘کا نام ہے۔
آصف علی زرداری سے میں نے ایک انٹرویو میں سوال پوچھا کہ آپ تو ڈائیلاگ کے ماہر ہیں، مفاہمت کا فن جانتے ہیں پھر عمران خان سے بات کیوں نہیں کرتے؟ ان کا جواب تھا کہ ’عمران خان سیاست کرے تو بات کریں گے ایک کھلاڑی سے کیا بات ہو سکتی ہے؟‘
موجودہ صورت حال میں عمران خان جیل میں ہیں، مناسب ڈیل کے انتظار میں ہیں اور اپنی شرائط پر یہ جنگ جیتنا چاہتے ہیں۔ فیصلے خود کرنے کی خواہش میں جماعت میں کسی پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ من چاہی ڈیل کے منتظر ہیں لیکن وقت کی چال کو سمجھنے سے یکسر انکاری۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جماعت میں کوئی ایک شخص ایسا نہیں جس پر انہیں اعتبار ہو کہ وہ مطلوبہ ڈیل کے نتائج لے آئے گا۔
پارٹی جیل سے چلانا ہے یا سوشل میڈیا کی بریگیڈ سے کام نکلوانا ہے، پارٹی ان سے زیادہ ان کی متحرک کردہ سوشل میڈیا ٹیم سے خوفزدہ ہے جبکہ خان صاحب اب بھی جیل میں ہاتھ میں لسٹ لیے بیٹھے ہیں جنہیں انہوں نے نہیں چھوڑنا۔ پارٹی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے اور وہ خوف کے ہتھیار سے پارٹی کنٹرول کرنا چاہتے ہیں۔
دوسری جانب موجودہ نظام اپنی جڑیں مضبوط کر چکا ہے۔ سیاست کی بساط تقریباً لپیٹی جا چکی ہے، انتظامی ارینجمنٹ کو ’وقت کا تقاضہ‘ قرار دیا جا چکا ہے۔ عالمی منظر نامے پر پاکستانی مقتدرہ کی پذیرائی موجود ہے جبکہ عالمی سیاست کے تقاضوں کے مطابق ’سیاسی اور انتظامی ایڈجسمنٹ‘ بھی ہو چکی ہے جس کو بظاہر کوئی خطرہ نہیں۔
ریاستیں اپنا مفاد دیکھتی ہیں اور پاکستان اپنے مفاد کے مطابق اہم کھلاڑی بننے کی دوڑ میں ہے۔ ایسے میں تاحال عمران خان ضرورت کے کسی خانے میں فٹ نہیں آتے۔ خان صاحب مقبولیت کے باوجو ’ضرورت‘ کیوں نہیں بن سکے اس پر انہیں اور اُن کی جماعت کو ضرور سوچنا چاہیے۔
سنا ہے کہ پارٹی میں موجودہ ’سنجیدہ سیاست دان‘ متفکر ہیں کہ دھیرے دھیرے تحلیل ہوتی جماعت کو بچانے کے لیے کچھ ’قربانیاں‘ تو دینا ہوں گی۔
میز پر موجودہ پیشکش ہے کہ ’گالم گلوچ بریگیڈ‘ کو برطرف کیا جائے، نو مئی پر معافی بھی مشروط جبکہ سیاست سے تشدد کا عنصر ختم کیا جائے تو بات آگے بڑھ سکتی ہے۔
عمران خان کے لیے یہ شرائط کیوں مشکل ہیں؟ تشدد پسند اور گالم گلوچ بریگیڈ سے جان چھڑانا کیوں ناممکن ہے؟ کیا خوف ہے کہ فیصلے کوئی اور نہ کرے بلکہ صرف وہ خود کریں؟ سیاست کرنے میں کیا دُشواری ہے؟ کیا ان سوالات کے جواب عمران خان کے پاس ہیں؟
تحریک انصاف بطور جماعت سیاست کی جانب بڑھ سکتی ہے، اسے باقی رہنا چاہیے۔ بقا کی اس جنگ میں مشکل فیصلے تو کرنا ہوں گے مگر کرے گا کون؟