اتراکھنڈ: 12 سالہ طالبہ کا مبینہ ریپ، مسلمانوں کی دکانوں پر حملے

طالبہ کی والدہ کی جانب سے درج کروائی گئی شکایت کے بعد ایک 75 سالہ مسلمان شخص کو گرفتار کرلیا گیا جبکہ نینی تال کے مقام پر ہندو مردوں کے ایک گروہ نے مبینہ ریپ کے خلاف احتجاج کے دوران مسلمانوں کی دکانوں اور کھانے پینے کی جگہوں کو نقصان پہنچایا۔

نو فروری 2024 کو انڈیا کی شمالی ریاست اتراکھنڈ کے ضلع ہلدوانی میں ایک مدرسے کی تباہی کے بعد شروع ہونے والی جھڑپوں کے ایک دن بعد سکیورٹی اہلکار سڑک پر پڑی ہوئی اینٹوں اور پتھروں کے پاس سے گزر رہے ہیں ( اے ایف پی)

انڈیا کی شمالی ریاست اتراکھنڈ میں مبینہ طور پر سکول کی طالبہ سے ریپ کے الزام میں ایک شخص کی گرفتاری کے بعد فرقہ وارانہ کشیدگی عروج پر ہے، جس کے باعث ہندوؤں نے مسلمانوں کی ملکیت والی دکانوں پر حملے شروع کر دیے۔

جمعرات کو نینی تال کے معروف سیاحتی مقام پر ہندو مردوں کے ایک گروہ نے مبینہ ریپ کے خلاف احتجاج کے دوران مسلمانوں کی دکانوں اور کھانے پینے کی جگہوں کو نقصان پہنچایا۔

ایک خاتون نے بدھ کو پولیس میں شکایت درج کروائی تھی کہ ایک 75 سالہ مسلمان شخص نے ان کی 12 سالہ بیٹی کا ریپ کیا ہے۔

سینیئر پولیس افسر پی این مینا کے مطابق اس شخص کو فوری طور پر گرفتار کر لیا گیا۔

اخبار ’دی ہندو‘ کے مطابق لڑکی نینی تال میں اپنے ایک رشتہ دار کے ساتھ رہائش پذیر تھی، جب کہ اس کی والدہ پڑوسی ریاست اتر پردیش کے علاقے سنبھل میں مقیم تھیں۔

ملزم نے مبینہ طور پر لڑکی کو پیسوں کا لالچ دے کر گیراج میں کھڑی اپنی کار میں اس کا ریپ کیا۔

پی این مینا کے مطابق، لڑکی نے اپریل میں اپنی والدہ سے ملاقات کے دوران یہ واقعہ بیان کیا، جس پر خاتون نے پولیس میں شکایت درج کروائی، جس کے بعد ملزم کو گرفتار کر لیا گیا۔ مینا نے ملزم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔‘

ملزم کی گرفتاری کی خبر پھیلتے ہی ایک ہجوم پولیس سٹیشن کے قریب جمع ہو گیا اور مقامی میڈیا کے مطابق جب انہیں اس کی شناخت کا علم ہوا تو وہ بازار کے قریب واقع اس کے کام کی جگہ کی طرف مارچ کر گئے۔

جلد ہی، وہ مالی تال کے علاقے میں مسلمانوں کی ملکیت والی دکانوں اور ریستورانوں پر حملے کرنے لگے۔ سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ویڈیوز میں دیکھا گیا کہ ہجوم کے افراد دکانداروں کو گھسیٹ کر باہر نکال رہے ہیں اور انہیں بری طرح پیٹ رہے ہیں، جب کہ دیگر ان کی دکانوں اور گاڑیوں کو تباہ کر رہے ہیں۔

یہ احتجاج آدھی رات کے بعد تک جاری رہا اور اطلاعات کے مطابق ایک مسجد پر پتھراؤ بھی کیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جمعے کو، مالی تال کے علاقے میں دکانیں اور سکول بند رہے اور پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی۔

اتراکھنڈ ہائی کورٹ نے پولیس کو ہدایت دی کہ وہ امن و امان قائم رکھے اور بڑے اجتماعات کو روکے۔ عدالت نے حکام کو آن لائن افواہوں کی نگرانی کرنے کا بھی حکم دیا تاکہ مزید تشدد کو روکا جا سکے۔

دریں اثنا، حکام نے ملزم کو نوٹس جاری کیا کہ اس کی جائیداد غیر قانونی ہے اور اگر اس کے برعکس کوئی ثبوت پیش نہ کیا گیا تو اسے مسمار کر دیا جائے گا۔

مقامی رہائشیوں کے ایک گروپ نے نینی تال انتظامیہ کو ایک یادداشت پیش کی، جس میں ایک مخصوص برادری، غالباً مسلمانوں سے تعلق رکھنے والے ’باہر سے آئے‘ افراد کی شناخت اور ان کی جائیدادوں کی جانچ پڑتال کا مطالبہ کیا گیا۔

پولیس افسر پی این مینا نے بتایا کہ پولیس نے ایک ’فساد جیسی صورت حال‘ کو روک کر حالات پر قابو پا لیا ہے۔ انہوں نے کہا: ’ہم ان مقامی افراد کی شناخت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جنہوں نے یہ بدامنی پھیلائی۔‘

سوشل میڈیا پر وسیع پیمانے پر شیئر کی گئی ویڈیو میں ایک خاتون کو مشتعل افراد سے یہ کہتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ بے گناہ مسلم کاروباری افراد پر حملے کر رہے ہیں جبکہ مبینہ متاثرہ لڑکی کا کوئی ذکر تک نہیں کر رہے۔

خاتون کو ہجوم سے سوال کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے: ’آپ بے گناہ دکانداروں پر حملہ کیوں کر رہے ہیں؟ یہ غلط ہے۔ آپ اسے ہندو مسلم معاملہ کیوں بنا رہے ہیں؟‘

انڈیا میں گذشتہ ایک دہائی سے وزیراعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد مذہبی تقسیم اور تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔ ہمالیائی ریاست اتراکھنڈ میں بھی بی جے پی کی حکومت ہے۔

نینی تال میں ہونے والا فرقہ وارانہ تشدد کا یہ واقعہ ایک ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب 22 اپریل کو کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں ہونے والے ایک دہشت گرد حملے کے بعد ملک بھر میں مسلمانوں کے خلاف جذبات بھڑک اٹھے ہیں۔ اس حملے میں 26 افراد مارے گئے تھے، جن میں زیادہ تر ہندو سیاح تھے۔ اس کے بعد مختلف انڈین ریاستوں میں کشمیری مسلمانوں کو تشدد اور بے دخلی کی دھمکیاں دی گئیں۔

انڈیا میں خواتین کے خلاف جنسی تشدد ایک بڑا مسئلہ ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق 2022 میں خواتین کے خلاف جرائم کے 445,256 کیسز درج کیے گئے، جو پچھلے سال کے مقابلے میں چار فیصد زیادہ ہیں، یعنی ہر گھنٹے تقریباً 51 شکایات درج کی گئیں، جب کہ خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپوں کا کہنا ہے کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ کئی واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا