ایران امریکہ معاہدے کے خدوخال کیا ہوں گے؟

امریکہ اپنی توجہ چین اور روس پر مرکوز رکھنا چاہتا ہے اور مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی میں اضافہ اس کے مفاد میں نہیں ہے۔

ایرانی ایوان صدر کی طرف سے فراہم کردہ ایک ہینڈ آؤٹ تصویر جس میں صدر مسعود پیزشکیان اور اٹامک انرجی آرگنائزیشن آف ایران کے سربراہ محمد اسلمی کو 9 اپریل 2025 کو تہران میں ’نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے قومی دن‘ کے موقع پر دیکھا جا سکتا ہے (اے ایف پی / ایرانی ایوان صدر)

ایران امریکہ سفارتی تعلقات ایک عرصے سے منقطع ہیں اور 1980 کے بعد سے اب تک تہران میں سوئٹزرلینڈ کا سفارت خانہ امریکن مفادات کا نگہبان ہے۔

اکتوبر 2023 سے مشرق وسطی میں ہونے والے ڈرامائی واقعات نے ایران اور امریکہ کے تعلقات میں مزید تناؤ پیدا کیا ہے کیوں کہ غزہ کی جنگ میں امریکہ نے اسرائیل کا بھرپور ساتھ دیا ہے اور امریکہ کے حالیہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے پیش رو سے کہیں زیادہ اسرائیل کے حامی ہیں۔

پچھلے ڈیڑھ سال کے مشرقِ وسطیٰ میں رونما ہونے والے واقعات میں ایران نواز تنظیموں کو خاصا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ حزب اللہ کے چوٹی کے رہنما اب اس دنیا میں نہیں رہے، حماس کے بھی چند چوٹی کے رہنما اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بنے ہیں اور ایران کے لیے سب سے بڑا سٹریٹیجک نقصان شام میں بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ ہے۔

وہ حلقہ مزاحمت جو ایران عراق شام سے ہوتا ہوا لبنان تک جاتا تھا، شام میں تبدیلی کی وجہ سے ٹوٹ چکا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ایران کا خطے میں پرانے والا اثر رسوخ برقرار نہیں رہا، جبکہ اسرائیل اب زیادہ طاقتور ہے۔

قارئین بخوبی جانتے ہیں کہ 2015 میں ایران امریکی ایٹمی معاہدہ طے پایا تھا جس پر ایران اور امریکہ کے علاوہ دنیا کے پانچ بااثر ممالک نے دستخط کیے تھے۔ معاہدے میں ایران کی یورینیم افزودگی کی صلاحیت کو 15 سال کے لیے بہت محدود کر دیا گیا تھا۔

2016 میں نو منتخب صدر ٹرمپ نے بغیر کسی لگی لپٹی کے کہہ دیا تھا کہ یہ معاہدہ انہیں قطعاً قبول نہیں۔

2018 میں صدر ٹرمپ نے اس معاہدے سے علیحدگی کا فیصلہ کیا۔ 2015 کے معاہدے کی مخالفت میں اسرائیل آگے آگے رہا۔

اسرائیل کا موقف ہے کہ ایران کا ایٹمی پروگرام سرے سے ہونا ہی نہیں چاہیے اور وہ اس سلسلے میں عسکری آپشن استعمال کرنے کے لیے بھی تیار ہے لیکن ایران کی ایٹمی تنصیبات پر اکیلے حملہ کرنے کا ابھی تک اسرائیل کو حوصلہ نہیں ہوا۔

وہ یہ کام امریکہ کی شراکت سے کرنا چاہتا ہے، مگر امریکہ عسکری آپشن استعمال کرنے کے حق میں نہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ایران امریکہ مذاکرات کا ابتدائی راؤنڈ سلطنت عمان کی وساطت سے مسقط میں ہو چکا ہے اور اس بات چیت کے جاری رہنے کے واضح امکانات ہیں۔

گذشتہ ماہ امریکہ کی نئی حکومت کا ایران سے متعلق رویہ جارحانہ تھا لیکن صدر ٹرمپ نے جلد ہی اپنا لہجہ بدل لیا اور ایران سے ڈیل کی بات کرنے لگے۔ پہلے اس بات کا کھوج لگانا ضروری ہے کہ صدر ٹرمپ ایران کے ساتھ مذاکرات کو ترجیح کیوں دینے لگے ہیں؟

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ صدر ٹرمپ اپنا امیج جنگوں کو بند کرانے والے رہنما کا ہی رکھنا چاہتے ہیں۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ امریکہ اپنی پوری توجہ چین پر مرکوز رکھنا چاہتا ہے اور یوکرین کی جنگ بھی ابھی جاری ہے۔ مشرق وسطیٰ میں ایک اور جنگ شروع کر کے امریکہ کا چین اور یوکرین سے فوکس ہٹ جائے گا۔

اس سے بھی اہم وجہ یہ ہے کہ ایران پر حملہ پوری دنیا کی معیشت کے لیے نقصان دہ ہو گا۔ ایران میں آبنائے ہرمز کو بند کرنے کی صلاحیت اب بھی ہے اور تیل اور گیس اور گیس کو لے کر دنیا کے مختلف اطراف جانے والے سمندری جہاز اسی تنگ گزرگاہ کو عبور کر کے جاتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایران نے متعدد بار اس بات کی جانب بھی اشارہ کیا ہے، اگر اس پر امریکی حملہ ہوا تو خلیجی ممالک میں قائم امریکی عسکری اڈے اس کا ہدف ہوں گے۔ امریکہ کے اپنے اندرونی معاملات میں بھی ٹھہراؤ نظر نہیں آ رہا۔

ٹیرف وار کے نتیجے میں سٹاک مارکیٹ متلاطم رہی ہے۔ مشہور و معروف یونیورسٹیاں صدر ٹرمپ کی غزہ کی نسبت سے لگائی گئی آزادیِ رائے پر پابندیوں پر نالاں ہیں۔ غیر قانونی ہجرت کے معاملات اس کے علاوہ ہیں۔

عراق اور افغانستان کی لاحاصل جنگوں کے بعد امریکہ میں امن پسند لابی مضبوط ہو گئی ہے۔ بین الاقوامی امور کے ماہرین یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ حد سے زیادہ کمزور ایران امریکہ کو سُوٹ نہیں کرتا کیونکہ اس سے خلیج میں طاقت کا توازن قائم نہیں رہے گا۔

کوئی دو سال پہلے امریکہ کی ایک حساس ایجنسی کی تحقیق کے مطابق ایرانی ایٹمی تنصیبات پر حملہ بےسود ہو گا کیونکہ اس حملے کے بعد ایران اپنا ایٹمی پروگرام زیادہ شد و مد سے شروع کر سکتا ہے۔

مسقط کے ابتدائی راؤنڈ کے بعد کا اگلا مذاکرات راؤنڈ روم میں ہو گا۔ توقع ہے کہ یہ مذاکرات گنجلک اور طویل ہوں گے۔ مذاکرات میں پارٹیاں شروع میں سخت موقف اختیار کرتی ہیں اور پھر ’کچھ لو اور کچھ دو‘ کے اصول پر معاملات طے ہونا شروع ہوتے ہیں۔

یہاں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ امریکہ اور ایران میں باہمی اعتماد کا فقدان ہے۔ امریکہ کی پوری کوشش ہو گی کہ 2015 کے معاہدے سے زیادہ کڑی شرطیں ایران پر لگائی جائیں۔

امریکہ اور اسرائیل دونوں کی خواہش ہے کہ ایران کا ایٹمی اور میزائل پروگرام ختم کر دیا جائے، لیکن ایرانی حکومت کے لیے یہ ریڈ لائن ہو گی۔

ایٹمی پروگرام اب ایران کی قومی حمیت کا مسئلہ بن چکا ہے، لیکن اقتصادی پابندیوں سے اکتائے ہوئے عوام یہ بھی چاہتے ہیں کہ نیا معاہدہ ہو جائے تاکہ ایران کی معیشت کی بحالی ہو سکے۔

توقع ہے کہ ایران کو ایٹمی پروگرام جاری رکھنے کی اجازت دے دی جائے گی، لیکن صرف پرامن مقاصد کے لیے یعنی لمبے عرصے تک یورینیم کی افزودگی کی شرح بہت محدود کر دی جائے گی اور انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کو پابند کیا جائے گا، بلکہ اختیار دیا جائے گا کہ ایرانی ایٹمی تنصیبات کا اچانک معائنہ کر سکے۔

اس کے عوض ایران پر امریکہ اور یورپی یونین کی طرف سے کرنسی، تجارت، جہاز رانی اور سرمایہ کاری سے متعلق پابندیاں اٹھا لی جائیں گی، اور ایرانی حکومت اس قابل ہو جائے گی کہ اپنے عوام کو مطمئن کر سکے۔

دوسری جانب صدر ٹرمپ اپنے عوام کو بتا سکیں گے کہ ہم نے 2015 کے مقابلے میں بہتر معاہدہ کیا ہے اور اب ایران جوہری ہتھیار نہیں بنا سکے گا۔

اگر یہ معاہدہ طے پا جاتا ہے تو اس کے خطے پر مثبت اثرات پڑیں گے امن اور سلامتی کی نوید ملے گی، امن کی بدولت خطے میں استحکام کی فضا مضبوط ہو گی، اور مزید ترقی و خوشحالی ممکن ہو سکے گی۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ