پاکستان انڈیا کشیدگی: انڈین سرحدی دیہات سے لوگوں کی نقل مکانی

پاکستان کے ساتھ سرحد پر واقع انڈین دیہات کے مکینوں نے گذشتہ بڑے فوجی تصادم کی ہولناکیوں کو یاد کرتے ہوئے اہل خانہ کو سرحد سے دور مقامات پر منتقل کر دیا ہے۔

پاکستان کے ساتھ  سخت نگرانی والی سرحد پر واقع انڈین دیہات کے مکینوں نے گذشتہ بڑے فوجی تصادم کی ہولناکیوں کو یاد کرتے ہوئے اہل خانہ کو سرحد سے دور مقامات پر منتقل کر دیا ہے۔ ان دیہات کے مکینوں کی گزر بسر کاشت کاری پر ہے۔

دریائے چناب کے کنارے پر واقع تقریباً 1500 افراد پر مشتمل زرعی بستی سینتھ کے جو لوگ ابھی وہاں موجود ہیں، وہ ایٹمی طاقت کے حامل ان دونوں حریفوں کے درمیان قدرتی سرحد کے پار خوف زدہ نظروں سے مستقبل کی طرف دیکھ رہے ہیں۔

گاؤں کے منتخب سربراہ 60 سالہ سکھ دیو کمار کہتے ہیں کہ ’ہمارے لوگ زیادہ دور کی منصوبہ بندی نہیں کر سکتے۔ یہاں کے زیادہ تر لوگ ایک معمولی سا گھر بنانے سے زیادہ سرمایہ کاری نہیں کرتے۔ کون جانتا ہے کہ کب دوسری جانب سے بھٹکا ہوا کوئی گولا آ گرے اور سب کچھ تباہ کر دے؟‘

ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہمسایہ ممالک کے تعلقات اس وقت شدید کشیدگی کا شکار ہو گئے جب انڈیا نے پاکستان پر اپنے زیر انتظام کشمیر میں عام شہریوں پر ہونے والے بدترین حملے کی پشت پناہی کا الزام عائد کیا۔

انڈین پولیس نے 22 اپریل کو پہلگام میں ہونے والے حملے میں ملوث تین افراد، دو پاکستانی اور ایک انڈین شہری کے وارنٹ اور اشتہاری پوسٹر جاری کیے ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ یہ افراد پاکستان میں قائم لشکر طیبہ سے تعلق رکھتے ہیں، جو اقوام متحدہ کی نامزد کردہ دہشت گرد تنظیم ہے۔

اسلام آباد نے ان مسلح افراد کو مدد فراہم کرنے کے الزام کو مسترد کر دیا، جنہوں نے 26 لوگوں کی جان لی۔ اس واقعے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان سفارتی کشیدگی میں اضافہ ہوا اور ایک دوسرے کے شہریوں کو ملک بدر بھی کیا گیا۔

انڈین فوج نے ہفتے کو بتایا کہ اس کے دستوں کا پاکستان کے فوجیوں کے ساتھ لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر رات بھر فائرنگ کا تبادلہ ہوا اور اس کے مطابق یہ جھڑپیں 24 اپریل سے ہر رات ہو رہی ہیں۔

مسلمان اکثریتی خطہ کشمیر 1947 میں برطانوی راج سے آزادی کے بعد سے انڈیا اور پاکستان کے درمیان تقسیم ہے، جہاں دونوں ممالک متنازع علاقے کے الگ الگ حصے پر حکومت اور پورے کشمیر پر دعویٰ کرتے ہیں۔

سینتھ، جو کھلے اور سرسبز میدانوں پر مشتمل ہے، انڈیا کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے ہندو اکثریتی حصے میں واقع ہے۔

یہاں سکیورٹی ہر جگہ موجود ہے۔ مرکزی سڑک کے ساتھ ساتھ بڑے فوجی کیمپ نظر آتے ہیں، جن کے ساتھ گھنی جھاڑیوں میں واچ ٹاورز بھی لگے ہوئے ہیں۔

سکھ دیو کمار کا کہنا ہے کہ زیادہ تر خاندانوں نے ’کہیں اور ایک متبادل گھر‘ کے لیے پیسے جمع کیے اور گاؤں میں اب صرف ایک تہائی کے قریب کاشت کار ہی باقی رہ گئے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ’زیادہ تر لوگ نقل مکانی کر چکے ہیں۔‘

یہ علاقہ اس وقت بری طرح متاثر ہوا جب 1999 میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان بلند ہمالیائی پہاڑوں کے شمالی علاقے کارگل میں، بڑا فوجی تصادم ہوا۔

وکرم سنگھ، جو 40 سال کے ہیں اور مقامی سکول چلاتے ہیں، اس وقت نوعمر تھے۔

انہیں یاد ہے کہ گاؤں کے اوپر سے ’شدید مارٹر گولہ باری‘ ہوتی۔ کچھ گولے تو بالکل قریب آ کر پھٹے۔

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’تب بھی حالات کشیدہ تھے اور اب بھی ویسے ہی ہیں۔‘

بقول وکرم: ’پہلگام حملے کے بعد سے تشویش بہت بڑھ گئی ہے۔ بچے خوف زدہ ہیں، بزرگ خوف زدہ ہیں۔ ہر شخص خوف کے عالم میں جی رہا ہے۔‘

بین الاقوامی سطح پر نئی دہلی اور اسلام آباد دونوں پر زور ڈالا جا رہا ہے کہ وہ بات چیت کے ذریعے اپنے اختلافات طے کریں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

امریکہ نے دونوں ملکوں کے رہنماؤں سے ’کشیدگی کم کرنے‘ کی اپیل کی جب کہ ہمسایہ ملک چین نے ’تحمل‘ سے کام لینے کا مشورہ دیا۔ یورپی یونین نے جمعے کو خبردار کیا کہ صورت حال ’تشویش ناک‘ ہے۔

وکرم سنگھ، زمینی سطح پر کسی حد تک اس حقیقت کو تسلیم کرتے دکھائی دیے کہ کچھ نہ کچھ لڑائی تو ہو کر رہے گی۔

ان کے بقول: ’کبھی کبھار تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اب جنگ شروع ہو جانی چاہیے، کیوں کہ ہمارے لیے تو یہ پہلے ہی روزمرہ کی حقیقت ہے۔

’ہم ویسے ہی ہر وقت گولہ باری کے خطرے میں گھرے رہتے ہیں تو اگر ایک بار سب کچھ ہو جائے، تو شاید ہمیں اس کے بعد ایک دو دہائیاں سکون سے جینے کا موقع مل جائے۔‘

جموں کے ایک اور چھوٹے سرحدی گاؤں ٹریوا میں سرگرمیاں تیزی سے جاری ہیں۔

36 سالہ بلبیر کور، جو گاؤں کی سابق سربراہ ہیں، نے بتایا کہ ’ابھی تک حالات پرسکون ہیں، آخری بار سرحد پار سے فائرنگ 2023 میں ہوئی تھی۔‘ 

لیکن گاؤں والے تیاریاں کر رہے ہیں۔ کنکریٹ کی پناہ گاہوں کو صاف کیا جا رہا ہے تاکہ بوقت ضرورت استعمال میں لایا جا سکے۔

بلبیر کور نے کہا کہ ’ماضی میں پاکستان کی جانب سے مارٹر گولہ باری کے باعث کئی جانی نقصان ہو چکے ہیں۔

’ہم نے گذشتہ چند دن اپنے بنکرز چیک کرنے، مشقیں کرنے اور ہنگامی حالات کے لیے اپنے طریقہ کار پر عمل میں گزارے تاکہ اگر حالات خراب ہوں تو ہم تیار ہوں۔‘

دوارکا داس، جو 65 سالہ کسان اور سات افراد پر مشتمل خاندان کے سربراہ ہیں، انڈیا اور پاکستان کے درمیان کئی تنازعات دیکھ چکے ہیں۔

داس کا کہنا تھا کہ ’ہم ایسے حالات کے عادی ہو چکے ہیں۔

’ماضی کی لڑائیوں کے دوران ہم نے بھاگ کر سکولوں اور قریبی شہروں میں پناہ لی تھی۔ ہمارے لیے اب بھی صورت حال مختلف نہیں ہو گی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا