انڈیا کے زیر انتظام کشمیرکے سیاحتی مقام پہلگام میں حملے کے بعد سے انڈیا اور پاکستان کے آپس کے حالات کشیدہ ہیں، انڈیا کی جانب سے پاکستان پر حملے کے امکانات بھی ظاہر کیے جا رہے ہیں۔
لاہور میں دیکھا جائے تو واہگہ بارڈر پر دونوں ممالک کی سرحدیں ایک دوسرے سے ملتی ہیں۔ واہگہ کے علاقے میں ارد گرد 100 سے زائد گاؤں ہیں جہاں لاکھوں کی تعداد میں لوگ بستے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو نے بھی یکم مئی کو واہگہ سے دو کلومیٹر کے فاصلے پر قائم ڈیال گاؤں کا دورہ کیا اور وہاں رہنے والے لوگوں سے بات چیت کی تاکہ یہ جان سکیں کہ سرحد کے قریب لوگ انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدہ حالات میں کیسے زندگی گزار رہے ہیں۔
جب ہم گاؤں کی طرف چلے تو راستے میں کہیں ہمیں فوج کی گاڑیاں اور رکاوٹیں دکھائی نہیں دیں بلکہ واہگہ کی جانب جانے والی سڑک پر معمول کی ٹریفک روں دواں تھی، شہری اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے اور سڑک کنارے معمول کی طرح سبزیوں اور پھلوں کی ریڑھیوں پر کاروبار جاری تھا۔
گاؤں کی پتلی سی ٹوٹی پھوٹی سڑک سے ہوتے ہوئے گاؤں کے اندر پہنچے تو دیکھا کہ ارد گرد جتنے کھیت ہیں وہاں کام جاری تھا۔
گائیں، بھینسیں تبیلے میں چھاؤں کے مزے لیتے ہوئے جگالی میں مصروف تھیں اور گاؤں کے کچھ لوگ درختوں کی چھاؤں میں بیٹھے ٹھنڈا ٹھنڈا دودھ سوڈا پی رہے تھے۔
ہماری تواضع بھی اسی دودھ سوڈے سے کی گئی، جبکہ کھیتوں میں تازہ تازہ کٹی فصلی کی سنہری گانٹھیں دھوپ میں اور بھی سنہری دکھائی دے رہی تھیں۔
گاؤں کے باسیوں نے بتایا کہ ان کے کھیتوں کی دوسری جانب انڈیا کی حدود ہیں اور وہاں ان کے کھیت دکھائی دیتے ہیں۔
گاؤں کے چوہدری محمد اکرم ڈیال نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’ڈیال واہگہ بارڈر کے اوپرعلاقے کا سب سے بڑا اور مشہور گاؤں ہے، گاؤں کی آبادی تقریباً 20 سے 25 ہزار ہے جبکہ بارڈر بیلٹ پر تقریباً 185 گاؤں اورہیں، بیلٹ پر جتنے بھی گاؤں ہیں وہ انڈیا کی طرٖف سے دی جانے والی دھمکی سے ایک فیصد بھی خوف زدہ نہیں ہیں۔ نہ ہماری فوج کو کسی قسم کا ڈر ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا کہ انشااللہ تعالیٰ اگر انڈیا نے کوشش کی، ہم پر حملہ کرنے کی یا دھمکانے کی تو انہیں ایسا جواب ملے گا کہ وہ نشان عبرت بن جائیں گے۔
’گاؤں کیا ہمارا پورا پاکستان سب جماعتیں پاک فوج کے ساتھ اس وقت کھڑی ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ہمارے گاؤں کے ارد گرد کے علاقے میں ایک فیصد بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی نہ انہیں کوئی ڈر ہے نہ خوف، نہ یہاں کوئی فوج آئی لیکن انڈیا کا علاقہ ہمارے ساتھ لگتا ہے انہوں نے ڈرتے ہوئے اپنے گاؤں خالی کرواکر لوگوں کو منتقل کرنا شروع کر دیا ہے۔ لیکن ہم معمول کے مطابق یہاں رہ رہے ہیں اورمعمول کے مطابق ہمارے کاروبار چل رہے ہی مال مویشی ہمارے گھر بار سب اسی طرح ہی ہیں۔'
تجمل حسین بھی ڈیال گاؤں سے تعلق رکھتے ہیں۔ انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے وہ کافی جذباتی ہو گئے اور کہنے لگے: ’جب کارگل کا مسئلہ بنا تو ہم نے سنا کہ انڈیا کے فوجی چھٹیاں لے کر بھاگ گئے ہیں، جنگ تو دور کی بات وہ خطرہ سنتے ہی بارڈر سے چھٹیاں لے کر بھاگ گئے تھے، ان بیچاروں نے کیا جنگ لڑنی ہے جو چھوٹی چھوٹی بات پر بھاگ جاتے ہیں؟‘
تجمل کہتے ہیں کہ ’ہمارا سارا ملک ایک ہے اور سارا پاکستان فوج کے ساتھ ہے، عوام فوج کے ساتھ ہے اور ہم پیچھے ہٹنے والے نہیں۔
’بارڈر کی عوام ویسے ہی دلیر ہے انہیں یہاں سے جانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ انہوں نے سارا دن یہاں اپنا کاروبار کرنا ہے اور رات کو اگر کوئی مسئلہ ہو جائے تو انہوں نے فوج کا ساتھ دینا ہے بلکہ یہ خود آگے ڈٹ جائیں گے۔‘
ڈیال گاؤں کے ایک نوجوان اکبر علی انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’چونکہ انڈیا میں انتخابات ہیں اس لیے وہ (نریندر مودی) پاکستانی اور اپنی عوام کو تنگ کر رہے ہیں۔ اگر اس کا اتنا ہی دل کرتا ہے تو آجائے بارڈر پر ہمارے ساتھ وہ جنگ کر لے ہم تیار ہیں۔ ہماری فوج صرف ہمیں حکم دے ہم تیار ہیں۔‘
محمد اسلم نے 1965 اور 1971 کی جنگیں بھی دیکھ رکھی ہیں لیکن ہم سے بات کرتے ہوئے انہیں 1965 کی جنگ یاد آئی اور وہ بولے ’1965 میں بھی میں نے جنگ دیکھی ہے اس وقت کیا ہوا اس کا انڈیا کو بھی معلوم ہے بلکہ پوری دنیا کو معلوم ہے، یہ کیا ہے انڈیا؟ ہم انڈیا کو کچھ نہیں سمجھتےاگر انڈیا نے جنگ شروع کی تو ہم نے 65 میں نشان حیدر لیے تھے اس بار ہمارے بچے نشان حیدر لیں گے۔‘
محمد اسلم کا کہنا تھا: ’کل ان کا جہاز ادھر آیا جس کا مونچھوں والا ڈرائیور تھا اس کو ہم نے کہا کہ تم بم پھینکنے آئے ہو ہم تم پر رحم کرتے ہیں، اگر تم نے پاکستان کے خلاف کوئی بات سوچی تو بچو گے نہیں۔‘